ملک کی مسلح افواج کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو بیرونی قوتیں تیزی سے استحصال کرتی ہیں
تقسیم ہند کے دوران تشدد کو روکنے میں مسلح افواج کے کردار کو یاد کیا
نئی دہلی،یکم نومبر (انڈیا نیرٹیو)
چیف آف ڈیفنس اسٹاف (سی ڈی ایس) جنرل بپن راوت نے کہا کہ چین اور پاکستان کے علاقائی عزائم کو دیکھتے ہوئے، ہندوستانی مسلح افواج کو ہمیشہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے اور متنازعہ سرحدوں اور ساحلی علاقوں میں سال بھر محتاط اور تعینات رہنے کی ضرورت ہے۔ 1962 کے بعد ہماری چینیوں کے ساتھ کئی جھڑپیں ہوئی ہیں، جن میں 1967 میں سکم کے ناتھو لا، 1986 میں وانگ ڈونگ، 2017 میں ڈوکلام اور حال ہی میں مشرقی لداخ میں شامل ہیں۔ اس کے بعد دونوں اطراف نے بتدریج ہزاروں فوجیوں کے ساتھ بھاری ہتھیاروں کے ساتھ سرحد پر تعیناتی بڑھا دی۔
سی ڈی ایس جنرل راوت آل انڈیا ریڈیو پر سردار پٹیل میموریل لیکچر سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سردار پٹیل نے ہندوستان اور چین کے درمیان ایک بفر ریاست کے طور پر آزاد تبت کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ اس کا تذکرہ اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ اپنی خط و کتابت میں کیا گیا ہے۔ راوت نے کہا کہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی کوئی ملک اپنی مسلح افواج کو نظر انداز کرتا ہے تو بیرونی طاقتوں کے ذریعہ اس کا استحصال بڑھتا ہے۔
راوت نے کہا کہ 1950 کی دہائی میں ہندوستان نے تاریخ کے اس اہم سبق کو نظر انداز کیا، جس کے نتیجے میں 1962 میں ہمیں اس کا سبق ایک ذلت آمیز تجربہ کے طور پر ملا۔ 1962 کے بعد ہماری چینیوں کے ساتھ کئی جھڑپیں ہوئی ہیں، جن میں 1967 میں سکم کے ناتھو لا، 1986 میں وانگ ڈونگ، 2017 میں ڈوکلام اور حال ہی میں مشرقی لداخ میں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان جھڑپوں کے نتائج نے واضح کر دیا ہے کہ ہندوستانی مسلح افواج قومی سرزمین کے دفاع کے لیے چوکس اور پرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے چین اور بھارت کو لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر امن برقرار رکھنے اور تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اعتماد سازی کے کئی دیگر اقدامات پر عمل کرنے میں مدد ملی ہے۔
سی ڈی ایس نے کہا کہ چین اور پاکستان کے علاقائی عزائم کا تقاضا ہے کہ ہندوستان کی مسلح افواج کو متنازعہ سرحدوں کے ساتھ ساحلی علاقوں میں سال بھر محتاط اور تعینات کیا جائے۔ ہندوستانی اور چینی فوجوں کے درمیان موجودہ سرحدی تعطل گزشتہ سال مئی میں مشرقی لداخ میں پرتشدد تصادم کے بعد شروع ہوا تھا۔ اس کے بعد دونوں اطراف نے بتدریج ہزاروں فوجیوں کے ساتھ بھاری ہتھیاروں کے ساتھ سرحد پر تعیناتی بڑھا دی۔ چیف آف ڈیفنس اسٹاف نے کہا کہ فوجی اور سفارتی بات چیت کے سلسلے کے نتیجے میں ہندوستان اور چین نے اگست میں گوگرا کے علاقے میں اور فروری میں پینگونگ جھیل کے شمالی اور جنوبی کنارے پر واپسی کا عمل مکمل کیا۔ اس وقت ایل اے سی کے حساس علاقے میں دونوں طرفکے تقریباً 50 سے 60 ہزار فوجی تعینات ہیں۔
راوت نے 1947 میں تقسیم ہند کے بعد تشدد پر قابو پانے میں ہندوستانی مسلح افواج کے کردار کو بھی یاد کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کسی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ہمارے ملک کی تقسیم سے پیدا ہونے والے فرقہ وارانہ جنون کی وجہ سے تباہی آئے گی۔کبھی ایک طبقے کی شکل میں رہنے والے لوگوں کے درمیان بڑے پیمانے پر تشدد کے نتیجے میں 1947 میں ہزاروں بے گناہ لوگوں کی جان چلی گئی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پولیس کی تعداد محدود تھی اور مکمل تربیت یافتہ بھی نہیں تھی۔ وہ خود بھی فرقہ وارانہ لڑائی کے صدمے سے دوچارتھے۔ اس وقت کا فرقہ وارانہ جنون پولیس کے قابو سے باہر تھا۔ اس کے بعد مسلح افواج کو فسادات پر قابو پانے اور سول آرڈر نافذ کرنے کے لیے بلایا گیاتھا۔