بسنت پنچمی( سرسوتی پوجا) ملک بھر میں دھوم دھام سے منایا جا رہا ہے
(بسنت پنچمئ پر خاص تحریر)
بسنت (Basant) یا بسنت پنچمی موسم بہار میں منائے جانے والا بنیادی طور پر ہندوؤن کا ایک تہوار ہے۔ یہ پانچویں ہندو مہینہ ماگھ کی 5 تاریخ کو ہوتا ہے اور ویدوں میں اس کا تعلق سرسوتی دیوی سے بتایا جاتا ہے جو ہندو مت میں موسیقی اور آرٹ (فن) کی دیوی سمجھی جاتی ہے۔
بسنت کا سنسکرت میں لفظی مطلب بہار کا ہے۔ اسے بسنت پنچمی اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ماگھ کی پانچ تاریخ کو منایا جاتا ہے جو عموماً فروری کے مہینے میں آتا ہے۔ ویدوں میں لکھا ہے کہ یہ سرسوتی دیوی کا دن ہے۔ اس دن خوشی منائی جاتی ہے اور سرسوتی دیوی کی پوجا کی جاتی ہے۔ خوشی کے اظہار کے لیے نئے کپڑے پہنے جاتے ہیں اور پتنگیں اڑائی جاتی ہیں اور موسیقی سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ ہندستان کے دیگر مذاہب کے افراد بھی اب یہ تہوار ثقافت کی آڑ میں مناتے ہیں۔
بسنت کو ہندستان کے بعض علاقوں میں دیگر مذاہب کے افراد بھی مناتے ہیں اور اس کی تاویل یہ دیتے ہیں کہ سردیوں کا موسم ختم ہورہا ہوتا ہے لوگ جو موسم کی شدت کی وجہ سے گھروں میں بند تھے۔درجہ حرارتمناسب ہونے پر گھروں سے باہر آتے ہیں اور خزاں اور سرما کی بے رنگی اور بدمزگی جو ان کے مزاج اور آنکھوں پر چھائی ہوئی ہے اسے باہر آکر تیز رنگوں والے کپڑے پہن کر باہر گھوم پھر کر یا پتنگ بازی کر کے طبیعت کے اس زنگ کو اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شوق کا زیادہ اظہار پتنگ بازی کی شکل میں نکلتا ہے۔
سپاٹ آسمان اچانک رنگوں سے سج جاتا ہے۔ فطرت انگڑائیاں لیتی ہے اور ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ خاکی رنگ کی زمین سرسوں کے پیلے اور ہرے رنگ کی وجہ سے رنگین ہو جاتی ہے۔ بہار کے دوسرے پھول اور پرندوں کی چہچہاہٹ خوشیوں کے پیغام لاتی ہیں کہ یہ بسنت ہے یہ جشن بہاراں ہے۔
فطرت کے اس رنگوں بھرے اور خوشیوں بھرے جشن میں انسان بھی شریک ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ وہ تمام کام کرتے ہیں جو اہل ہنود کرتے ہیں سوائے سرسوتی دیوی کی پوجا کے۔ جب کہ بسنت کے مخالفین کے مطابق اس تہوار کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے ایک شخص سے جوڑتے ہیں جس کا ذکر ایک ہندو مؤرخ نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔
’’اس مکتب فکرکے مطابق بسنت ہندوؤں اور سکھوں کا مشترکہ تہوار ہے۔ ایک ہندو مؤرخ بی ایس نجار نے اپنی کتاب"Punjab under the later Mughals" میں لکھا ہے کہ
’’حقیقت رائے باگھ مل پوریسیالکوٹکے ایک ہندو کھتری کا اکلوتا لڑکا تھا۔ حقیقت رائے نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اورحضرت فاطمہرضی اللہ عنہا کی شان میں انتہائی گستاخانہ اور نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ اس جرم پر حقیقت رائے کو گرفتار کرکے عدالتی کارروائی کے لیے لاہوربھیجا گیا جہاں اسےسزائے موت کا حکم سنادیا گیا۔
اس واقعے سےپنجابکے ہندوؤں کو شدید دھچکا لگا اور کچھ ہندو افسر سفارش کے لیے اُس وقت کے پنجاب کے گورنر ذکریا خان (1707 تا 1759) کے پاس گئے کہ حقیقت رائے کو معاف کر دیا جائے لیکن ذکریا خان نے کوئی سفارش نہ سنی اور سزائے موت کے حکم پرنظر ثانیکرنے سے انکار کر دیا۔ لہٰذا اس گستاخ رسول کی گردن اڑادی گئی۔ اس پر ہندوؤں میں صف ماتم بچھ گئی۔
ہندوؤں نے حقیقت رائے کی ایک مڑہی (یادگار) قائم کی جو کوٹ خواجہ سعید (کھوجے شاہی) لاہور میں واقع ہے اور اب یہ جگہ ’’باوے دی مڑہی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
جس دن حقیقت رائے کو پھانسی ہوئی اس دن شہر میں بسنت تھی۔ اس سے اگلے سال ایک مقامی ہندو رئیس کالو رام کی سرگردگی میں یہاں تمام ہندو اکھٹے ہوئے، انہوں نے پتنگیں اڑائی اور ڈھول بجائے۔
یہ مکتب فکر بسنت کو ایک موسمی نہیں بلکہ مذہبی تہوار سمجھتا ہے چوں کہ اس کا ذکر پرانی ہندو مذہبی کتب میں آتا ہے۔ پرانی کتابوں کے مطابق پتنگ پر دو آنکھیں یا دوسرے شکلیں بنا کر آسمان سے نازل ہونے والی بلائیں دور کی جاتی ہیں۔ یہ خیالات جنوب مشرقی ایشیا کے کچھ ممالک میں بھی پائے جاتے ہیں جیسےسنگاپور،تھائی لینڈوغیرہ۔
ہندستان میں آج بسنت پنچمی قدیم روایات کو مد نظر رکھ کر منایا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سرسوتی پوچا کا بھی متعدد مقامات پر انتظامات ہیں، اس تہوار کے لیے ملک و بیرون ملک کے متعدد اہم شخصیات نے نیک خواہشات سے نوازا ہے۔
(نوٹ:اس تحریر کا زیادہ تر حصہ آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے ماخوذ ہے)