ملک کی نصف آبادی اب مردوں کی اجارہ داری والے علاقوں میں ہاتھ آزمانے کی صلاحیت رکھتی ہے، گھر میں چولہے پر کام کرنے اور محنت مزدوری کرنے کے علاوہ پڑھ لکھ کر کچھ نیا کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ ایسی ہی امنگوں والی بیٹیوں کو بارڈر سیکورٹی فورس نے تقریباً پندرہ سال قبل اپنے خاندان میں شامل کیا تھا۔
2008میں پہلی بار بارڈر سیکورٹی فورس میں خواتین کی بٹالین تشکیل دی گئی۔ راجستھان کی سرحد پر تعینات خواتین سنینلز سب سے پہلے سری گنگا نگر کی سرحد پر کھیتوں کے اندر اور باہر جانے والی خواتین کی تلاش میں مصروف تھیں۔ تقریباً پندرہ سال قبل پہلی بار بارڈر سیکورٹی فورس میں خواتین گارڈز کو بھرتی کیا گیا تھا۔
ان دنوں فورس میں کام کرنے والی خواتین گارڈز پوری بہادری کے ساتھ سرحد کی حفاظت کر رہی ہیں۔ جیسلمیر سے متصل ہندوستان پاکستان بین الاقوامی سرحد پر ان دنوں شدید گرمی ہے اور صحرائی ٹیلے بھی سخت اندھیرے میں اپنی جگہ مستحکم نہیں رکھ پا رہے ہیں اور انہیں بھی ان شدید گرمیوں میں اپنی جگہ بدلنی پڑ رہی ہے۔ ایسے مشکل جغرافیائی حالات میں سرحد کی حفاظت کا کام ہندوستان کی پہلی دفاعی لائن بارڈر سیکورٹی فورس کی خواتین گارڈز انجام دے رہی ہیں۔ ان دنوں شدید گرمی میں بھی یہ خواتین چوکیدار سرحد کے اس پار ہر مذموم حرکت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ہر وقت اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہی ہیں، اونٹ پر سوار ہو کر سرحد پر تار بندی کے قریب چوکس نظریں جمائے ہوئے ہیں۔
بارڈر سیکورٹی فورس بھی ان کی بہادری کا لوہا مانتی ہے۔ اس شدید گرمی میں بھی کوئی ان کے حوصلے اور جذبے کو ہلا نہیں سکتا۔ بی ایس ایف نے اپنے آفیشل ٹویٹر ہینڈل پر ان خواتین گارڈز کی بہادری کی تعریف کی ہے۔
جیسلمیر سے متصل صحرائے تھار میں مردوں کی طرح پاکستان کی سرحد پر خواتین فوجی بھی پیدل یا اونٹوں پر گشت کرتی ہیں۔ ہاتھ میں بھاری ہتھیار لے کر مضافات میں ملک کی سلامتی کو سنبھالنے والی یہ بیٹیاں مہیلا پرہری کے نام سے جانی جاتی ہیں۔
یہ خواتین گارڈز سرحد پر نہ صرف رات کی گشت بلکہ ہر قسم کی جنگی ڈیوٹی، ہر آپریشن میں اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ بھارت پاکستان بین الاقوامی سرحد کے عجیب و غریب جغرافیائی حالات بھی ملک کے مختلف حصوں میں رہنے والی ان بیٹیوں کو نہیں روک سکے جو یہاں ڈیوٹی کر رہی تھیں۔ چاہے وہ گرمیوں کی گرمی ہو، زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت ہو یا مائنس ڈگری سردی۔