Urdu News

دھرم سنسد اونا: سپریم کورٹ نے ہماچل حکومت کوجاری کیا نوٹس

دھرم سنسد اونا: سپریم کورٹ نے ہماچل حکومت کوجاری کیا نوٹس

نئی دہلی، 26 اپریل (انڈیا نیرٹیو)

سپریم کورٹ نے 17 اپریل کو اونا میں منعقد ہوئی دھرم سنسدکے حوالے سے ہماچل پردیش حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔ عدالت نے پوچھا ہے کہ ایسے معاملات کے لیے پہلے سے جاری کردہ ہدایات کی تعمیل کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔

عدالت نے کل یعنی27 اپریل کو اتراکھنڈ کے روڑکی میں منعقد ہونے والی دھرم سنسد کے لیے ریاستی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر اشتعال انگیز تقاریرپر لگام نہیں لگی تو اعلیٰ حکام ذمہ کو دار تسلیم کیا جائے گا۔  سپریم کورٹ نے چیف سکریٹری کو حلف نامہ دینے کے لئے کہا کہ پروگرام میں کچھ بھی غلط ہونے کو روکنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔ درخواست گزار قربان علی کے وکیل کپل سبل نے کہا تھا کہ انتظامیہ نے اشتعال انگیز باتوں سے کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات نہیں کیے ہیں۔

22 اپریل کو عدالت نے دہلی میں 19 دسمبر 2021 کو منعقدہ ہندو یوا واہنی کے پروگرام پر پولیس کے جواب پر وضاحت طلب کی تھی۔ سپریم کورٹ نے دہلی پولیس کو نیا حلف نامہ داخل کرنے کی ہدایت دی تھی۔ سپریم کورٹ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے  کہاتھاکہ یہ سب انسپکٹر کے رینک کے تفتیشی افسر کا موقف ہے یا ڈی سی پی کا۔

دہلی پولیس نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا ہے کہ 21 دسمبر 2021 کو دہلی میں ہندو یووا واہنی کے پروگرام میں سدرشن ٹی وی کے اینکر سریش چوہانکے نیمسلم کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیز تقریر نہیں کی تھی۔ دہلی پولیس نے عرضی کو خارج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ساوتھ ایسٹ دہلی کی ڈی سی پی ایشا پانڈے کی جانب سے داخل کردہ حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ پروگرام کی ویڈیو کو قریب سے دیکھنے کے بعد ایسا نہیں لگا کہ قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور کسی مذہب کے لوگوں کے خلاف ماحول بنایا گیا ہو۔ دہلی پولیس نے کہا ہے کہ کسی کو بھی اپنے مفادات کے لیے پروگرام منعقد کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ دہلی پولیس نے کہا ہے کہ درخواست گزار قربان علی اور انجنا پرکاش دیسائی نے نہ تو کبھی پولیس کو اور نہ ہی کسی اور ایجنسی کو شکایت کی۔ وہ سیدھے سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ درخواست گزار نہ تو شکایت کنندہ ہے اور نہ ہی متاثرہ۔ یہ ایک غلط رجحان ہے جس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہیے۔

دراصل  12 جنوری کو عدالت نے درخواست گزاروں کو اس بات کی اجازت دی تھی کہ وہ دیگر مقامات پرہوئے اس طرح کے واقعات کے خلاف مقامی انتظامیہ کو اپنی درخواست دیں۔ سپریم کورٹ میں درخواست صحافی قربان علی اور پٹنہ ہائی کورٹ کی سابق جج اور وکیل انجنا پرکاش نے دائر کی ہے۔ایک درخواست ملک بھر میں مسلم مخالف اشتعال انگیز تقاریر کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے  جمعیۃ علمائے  ہند اور مولانا محمود مدنی کی طرف سے بھی دائر کی گئی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر سے کئی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ پولیس اشتعال انگیز بیانات دینے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے۔

Recommended