نئی دہلی، 26 نومبر (انڈیا نیرٹیو)
جمہوری نظام میں حکمراں پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان تعلقات کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے صدر رام ناتھ کووند نے کہا کہ اختلاف رائے ہو سکتا ہے لیکن کوئی اختلاف اتنا بڑا نہیں ہونا چاہیے کہ عوامی خدمت کے حقیقی مقصد میں رکاوٹ پیدا ہو۔ حکمراں جماعت اور اپوزیشن دونوں کو مشترکہ طور پر جمہوری اقدار کی پاسداری اور تحفظ کا مشورہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے ارکان میں مقابلہ ہونا فطری بات ہے لیکن یہ مقابلہ آرائی بہتر نمائندے بننے اور بہتر کام کرنے کی ہے۔مسابقت کا مقصد عوام کی فلاح و بہبود ہونی چاہیے۔ تب ہی اسے صحت مند مسابقت سمجھا جائے گا۔ پارلیمنٹ میں مقابلہ آرائی کو دشمنی نہ سمجھا جائے۔
پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں یوم آئین کے موقع پر منعقدہ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ اپوزیشن درحقیقت جمہوریت کا سب سے اہم عنصر ہے۔ سچ یہ ہے کہ موثر اپوزیشن کے بغیر جمہوریت بے اثر ہو جاتی ہے۔ توقع ہے کہ حکومت اور اپوزیشن اپنے اختلافات کے باوجود شہریوں کے بہترین مفادات کے لیے مل کر کام کرتے رہیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم سب مانتے ہیں کہ ہماری پارلیمنٹ 'جمہوریت کا مندر' ہے۔ لہٰذا ہر پارلیمنٹیرین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جمہوریت کے اس مندر میں اسی احترام کے ساتھ پیش آئے جس احترام کے ساتھ وہ اپنی عبادت گاہوں میں آتے ہیں۔
کووند نے کہا کہ ہمارے آئین میں وہ تمام بلند و بالا مثالیں موجود ہیں جن کے لیے دنیا کے لوگ اقدار اور امید کے ساتھ ہندوستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہمارا آئین، "ہم ہندوستان کے لوگ" کے الفاظ سے شروع ہوتا ہے، یہ واضح کرتا ہے کہ ہندوستان کا آئین لوگوں کی امیدوں کا اجتماعی اظہار ہے۔
صدر جمہوریہ نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ دستور ساز اسمبلی کے مباحث اور آئین کا تحریری ورژن اور جدید ترین ورژن بھی ڈیجیٹل شکل میں جاری کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ تمام قیمتی دستاویزات سب کے لیے قابل رسائی ہو گئی ہیں۔
کووند نے کہا کہ ہمارے ملک میں شروع سے ہی نہ صرف خواتین کو ووٹ کا حق دیا گیا ہے بلکہ بہت سی خواتین آئین ساز اسمبلی کی ممبر تھیں اور انہوں نے آئین کی تشکیلمیں بے مثال کردار ادا کیاہے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کے بعض علماء کہتے تھے کہ ہندوستان میں بالغ رائے دہی کا نظام ناکام ہو جائے گا۔ لیکن یہ تجربہ نہ صرف کامیاب رہا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ دیگر جمہوریتوں نے بھی اس سے بہت کچھ سیکھا ہے۔
ہماری آزادی کے وقت اگر قوم کے سامنے درپیش چیلنجز کو دھیان میں رکھا جائے تو 'ہندوستانی جمہوریت' بلاشبہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی کامیابیوں میں شمار کی جا سکتی ہے۔ اس کامیابی کے لیے صدر جمہوریہ نے آئین کے معماروں کی دور اندیشی اور عوام کی دانشمندی کو سلام پیش کیا۔