Urdu News

بیلوں کو قابو کرنے والے کھیل’جلی کٹو‘کو قانونی حیثیت، کیسے دیکھتے ہیں آپ؟

بیلوں کو قابو کرنے والا کھیل جلی کٹو کی ایک تصویر

سپریم کورٹ نے جلی کٹو، مہاراشٹر میں بیل گاڑیوں کی دوڑ اور کرناٹک میں کمبالا کو منظوری دی

نئی دہلی، 18 مئی (انڈیا نیرٹیو)

 سپریم کورٹ نے  تمل ناڈو میں بیلوں کو قابو کرنے والے کھیل جلی کٹو کو اجازت دینے والی ریاستی حکومت کے قانون کو درست ٹھہرایا ہے۔

  جسٹس کے ایم جوزف کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ نئے قانون میں ظلم کے پہلو کا خیال رکھا گیا ہے۔ یہ کھیل صدیوں سے تامل ناڈو کی ثقافت کا حصہ رہا ہے۔ جس میں خلل نہیں ڈالا جا سکتا۔ اگر کوئی کسی جانور پر ظلم کرتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے مہاراشٹرا، کرناٹک میں کمبالا میں بیل گاڑیوں کی دوڑ سے متعلق قانون کو بھی برقرار رکھا۔

8 دسمبر 2022 کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بنچ نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ سماعت کے دوران تمل ناڈو حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل مکل روہتگی نے کہا تھا کہ ناگراج کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ درست نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ناگراج کا فیصلہ اس غلط بنیاد پر مبنی تھا کہ جانوروں کے حقوق ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی لغت میں ہیومنزم کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ ‘انسانی’، ‘انسانیت’ اور ‘انسانیت نوازی ‘ بالکل مختلف ہیں۔

  ماضی میں  یہ  انسانی اور ہمدرد انہ نقطہ نظر ہے۔ انسانیت کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ ہیومنزم کا مطلب ایک عقلیت پسند ہے جو مذہب یا کسی مافوق الفطرت قوت پر یقین نہیں رکھتا۔ عدالت کیسے فیصلہ کرے گی کہ جلی کٹو یا بیل گاڑی کی دوڑ ضروری ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ ثقافت، تفریح  یا مذہب کا حصہ ہے۔

سینئر وکیل سدھارتھ لوتھرا، درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہوئے، تمل ناڈو حکومت کے اس دعوے کی مخالفت کی کہ جلی کٹو ایک تمل ثقافت ہے۔ صرف یہ کہنے سے یہ ثقافت نہیں بن جاتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ کلچر ہے تو کیا آج کل تمام کلچر کی پیروی کی جاتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ناگراج کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جانور کھیلوں کے لیے نااہل ہیں۔

 اگر یہ کھیل برسوں سے جاری ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی اجازت دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ عدم تشدد کو ملک کی بنیاد میں جگہ ملی ہے۔ ہم عدم تشدد کے اصول سے دور نہیں جا سکتے۔جسٹس کے ایم جوزف کے علاوہ آئینی بنچ میں جسٹس اجے رستوگی، جسٹس انیرودھا بوس، جسٹس ہرشی کیش رائے اور جسٹس سی ٹی روی کمار شامل تھے۔واضح رہے کہ یہ معاملہ 2 فروری 2018 کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے آئینی بنچ کو بھیجا تھا۔

Recommended