Urdu News

ہندوستان ایک غریب اور ناخواندہ ملک سے آگے بڑھ کرآج عالمی اسٹیج پر ایک پر اعتماد ملک بن چکا ہے

صدر جمہوریہ ہند نے 'لائبریریوں کے فیسٹیول' کا افتتاح کیا

چوہترویں یوم جمہوریہ سے قبل شام صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کا قوم کے نام خطاب میں کہا کہ مذاہب اور زبانوں کا تنوع ہمیں تقسیم نہیں بلکہ ہمیں جوڑا ہے

صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے 74ویں یومِ جمہوریہ سے قبل کی شام ملک کے نام اپنے خطاب میں عوام کو یومِ جمہوریہ کی مبارکباد پیش کی اور کہا کہ ’’جب ہم یوم جمہوریہ مناتے ہیں، تب ایک ملک کی شکل میں ہم نے مل جل کر جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، ان کا جشن مناتے ہیں۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ’’ہم سب ایک ہی ہیں، اور ہم سبھی ہندوستانی ہیں۔ اتنے سارے مذاہب اور اتنی ساری زبانوں نے ہمیں تقسیم نہیں کیا ہے بلکہ ہمیں جوڑا ہے۔ اس لیے اہم ایک سیکولر جمہوریت کی شکل میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہی ہندوستان کی پہچان ہے۔‘‘

 صدر جمہوریہ نے کہا کہ ’’ہندوستان ایک غریب اور ناخواندہ ملک کی حالت سے آگے بڑھتے ہوئے عالمی اسٹیج پر ایک حوصلہ مندی سے بھرے ملک کی جگہ لے چکا ہے۔ آئین سازوں کی اجتماعی دانشمندی سے ملی رہنمائی کے بغیر یہ ترقی ممکن نہیں تھی۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’گزشتہ سال ہندوستان دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت بن گیا۔ یہ حصولیابی معاشی غیر یقینی سے بھرے عالمی ماحول میں ملی ہے۔ اہل قیادت اور بااثر جدوجہد کی طاقت پر ہم جلد ہی بحران سے باہر آ گئے اور اپنی ترقی کے سفر کو پھر سے شروع کیا۔‘‘

 انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ بھارت ، دنیا کی سب سے قدیم زندہ تہذیبوں  میں سے ایک ہے ۔ بھارت کو جمہوریت  کی ماں کہا  جاتاہے  ، پھر بھی ہماری جدید جمہوریت نوجوان ہے ۔ جمہوریت کے شروعاتی برسوں میں ، ہمیں اَنگنت  چیلنجوں اور منفی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا۔ طویل غیر ملکی حکمرانی کے بہت سے خراب  نتائج میں سے دو خراب اثرات تھے –  خطرناک حد تک غریبی اور ناخواندگی ۔ پھر بھی بھارت کا عزم متزلزل نہیں ہوا۔ امید اور یقین کے ساتھ ہم نے انسانیت  کی تاریخ میں ایک انوکھا تجربہ شروع کیا۔

آزادی کے  اصولوں کے مطابق  ہماری جمہوریت کو بنیاد دینے والا آئین بنا ۔ مہاتما گاندھی کی قیادت میں، قومی تحریک کا مقصد  ، آزادی حاصل کرنا بھی تھا اور بھارتی اصولوں کو پھر سے قائم کرنا بھی تھا ۔  ان دہائیوں کی جدوجہد اور قربانیوں نے ہمیں نہ صرف غیر ملکی حکمرانی سے بلکہ مسلط  کی گئی اقدار اور تنگ نظری سے بھی آزادی حاصل کرنے میں مدد فراہم کی۔ امن ، بھائی چارا اور برابری کی ہماری صدیوں پرانی اقدار کو پھر سے اپنانے میں انقلابیوں اور مصلحین نے دور اندیش اور مثالی شخصیات کے ساتھ مل کر کام کیا۔  جن لوگوں نے  جدید  بھارتی خیالات کو فروغ دیا ، انہوں نے ” آنو بھدراہ کرتو ینتو وشواتا ”  یعنی – ہمارے پاس سبھی سمت سے اچھے نظریات آئیں – کے ویدِک اْپدیش کے مطابق  ترقی پسند  نظریات کا بھی خیرمقدم کیا ۔ طویل اور گہرائی سے غور و خوض کے نتیجے میں ہمارے آئین کی تشکیل ہوئی۔

ہماری یہ بنیادی دستاویز دنیا کی قدیم ترین زندہ تہذیب کے انسانیت پسند فلسفے کے ساتھ ساتھ جدید نظریات سے بھی متاثر ہے۔ ہمارا ملک باباصاحب بھیم راؤ امبیڈکر کا ہمیشہ مقروض رہے گا، جنہوں نے ڈرافٹنگ کمیٹی کی سربراہی کی اور آئین کو حتمی شکل دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔  آج کے دن ہمیں  آئین کا ابتدائی مسودہ تیار کرنے والے ماہرِ قانون جناب بی این راؤ اور دیگر ماہرین اور عہدیداروں پر  بھی  فخر کرنا چاہیئے ،  جنہوں نے آئین کی تشکیل میں مدد کی تھی ۔ ہمیں  اِس بات کا فخر ہے کہ اس  آئین ساز اسمبلی کے ارکان نے  ، بھارت کے  سبھی علاقوں اور  برادریوں کی نمائندگی کی۔ آئین ساز اسمبلی میں  15 خواتین ارکان نے بھی تعاون کیا ۔

  سروودیہ  کے ہمارے مشن میں، اقتصادی محاذ پر پیش رفت سب سے زیادہ حوصلہ افزا رہی ہے۔ پچھلے سال  بھارت ، دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت بن گیا تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ کامیابی معاشی غیر یقینی صورت ِحال کے عالمی پس منظر میں حاصل کی گئی ہے۔ عالمی وباء   اپنے چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہے اور دنیا کے  زیادہ تر حصوں میں اقتصادی ترقی پر ، اس کا اثر پڑ رہا ہے۔ ابتدائی  دور میں کووڈ-19 سے  بھارت کی معیشت کو بھی کافی نقصان پہنچا  ، پھر بھی اہل قیادت اور موثر جدوجہد کے بل پر، ہم جلد ہی کساد بازاری سے نکل آئے اور اپنی ترقی کا سفر دوبارہ شروع کیا۔ معیشت کے بیشتر شعبے اب وباء   کے اثرات سے باہر آچکے ہیں۔  بھارت  سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے۔ یہ حکومت کے ذریعے وقت پر کی گئی  فعال کوششوں کی  وجہ سے ہی ممکن ہو پایا ہے۔ اس تناظر میں ‘خود  کفیل بھارت ‘ مہم  کے تئیں عوام کے درمیان خاص جوش  و خروش دیکھا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف شعبوں کے لئے  خصوصی مراعاتی اسکیمیں بھی نافذ کی گئی ہیں۔

 ہماری معیشت کی بنیاد مضبوط ہونے کی وجہ سے   ، ہم  مفید کوششوں کا سلسلہ شروع کرنے اور آگے بڑھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہمارا حتمی مقصد ایک ایسا ماحول بنانا ہے  ، جس  سے سبھی شہری انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی  حقیقی صلاحیتوں  کا بھر پور استعمال کریں اور  ان کی زندگی پھلے پھولے ۔  اس مقصد کے حصول کے لئے تعلیم  ہی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اس لئے ‘قومی تعلیمی پالیسی’ میں  حوصلہ افزا تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ تعلیم کے دو بنیادی مقاصد کہے جا سکتے ہیں۔ پہلا، معاشی اور سماجی  طور پر بااختیار بنانا اور دوسرا، سچ کی تلاش۔ قومی تعلیمی پالیسی  ، ان دونوں مقاصد کے حصول کی راہ ہموار کرتی ہے۔ یہ پالیسی  تعلیم حاصل کرنے والوں کو 21ویں صدی کے چیلنجوں  کے لئے   تیار کرتے ہوئے ، ہماری تہذیب پر مبنی علم کو  جدید زندگی کے لئے مفید بناتی ہے۔ اس پالیسی میں تعلیمی عمل کو وسعت اور گہرائی فراہم کرنے میں ٹیکنالوجی کے اہم کردار کو اجاگر کیا گیا ہے۔

صدر جمہوریہ نے اس موقع پر حکومت کے ڈیجیٹل انڈیا مشن کی بھی تعریف کی ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کووڈ-19 کے ابتدائی دور میں یہ دیکھنے کو ملا کہ ٹیکنالوجی  میں زندگی کو بدلنے  کے امکانات ہوتے ہیں۔ ‘ڈیجیٹل انڈیا مشن’ کے تحت دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان فرق کو ختم کرکے معلومات اور مواصلاتی ٹیکنالوجی کو شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دور دراز علاقوں میں زیادہ سے زیادہ لوگ انٹرنیٹ سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ بنیادی ڈھانچے میں توسیع کی مدد سے، لوگوں کو حکومت کی طرف سے فراہم کردہ مختلف قسم کی خدمات حاصل ہو رہی ہیں۔ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی کامیابیوں پر فخر محسوس کر سکتے ہیں۔ خلائی ٹیکنالوجی کے میدان میں بھارت چند سرکردہ ممالک میں سے ایک رہا ہے۔ اس شعبے میں کافی عرصے سے التوا میں  پڑی اصلاحات کی جا رہی ہیں اور اب نجی اداروں کو اس ترقی کے سفر میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔  بھارتی خلابازوں کو لے جانے کے لئے  ‘گگن یان’ پروگرام  جاری ہے۔ یہ  بھارت کی پہلی انسان بردار خلائی پرواز ہوگی۔ ہم ستاروں تک پہنچ کر بھی  اپنے پاؤں زمین پر رکھتے ہیں۔

بھارت  کے ‘منگل  مشن’ کو غیر معمولی خواتین کی  ایک ٹیم  کے ذریعے چلایا گیا تھا  اور دیگر شعبوں میں  بھی بہنیں اور بیٹیاں  اب  پیچھے نہیں ہیں۔ خواتین کو بااختیار بنانا اور خواتین اور مردوں کے درمیان مساوات اب محض نعرے نہیں رہے۔ ہم نے حالیہ برسوں میں ان آئیڈیلز تک پہنچنے میں بڑی پیش رفت  حاصل کی ہے۔ ‘بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ’ مہم میں لوگوں کی شمولیت کے  بل  پر، کام کے ہر شعبے میں خواتین کی نمائندگی بڑھ رہی ہے۔ ریاستوں کے اپنے دوروں، تعلیمی اداروں میں پروگراموں اور پیشہ ور افراد کے مختلف وفود سے ملاقاتوں کے دوران، میں  لڑکیوں کی خود اعتمادی سے بہت متاثر  ہوتی ہوں۔ میرے ذہن میں کوئی شک نہیں ہے کہ  خواتین ہی آنے والے کل کے  بھارت  کو شکل دینے کے لئے سب سے زیادہ تعاون کریں گی۔ اگر نصف آبادی کو  قومی تعمیر میں اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق تعاون کرنے کا موقع دیا جائے  اور ان کی  ہمت افزائی کی جائے ، تو ایسے کون سے معجزے ہیں ، جو نہیں کئے جا سکتے ؟

بااختیار بنانے کا  یہ نظریہ  درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل  سمیت کمزور طبقے کے لوگوں کے لئے حکومت کے طریقہ? کار کی رہنمائی کرتا ہے۔ درحقیقت ہمارا مقصد نہ صرف ان لوگوں کی زندگی کی  رکاوٹوں کو دور کرنا اور ان کی ترقی میں مدد کرنا ہے بلکہ ان  برادریوں سے سیکھنا بھی ہے   ، خاص طور  سے  قبائلی برادریوں کے لوگ  ماحولیات کے تحفظ سے لے کر سماج  کو  اور زیادہ متحد بنانے تک کئی شعبوں میں  سکھا  سکتے ہیں۔

حکمرانی کے تمام پہلوؤں میں تبدیلیاں لانے اور لوگوں کی تخلیقی توانائی کو بروئے کار لانے کے لئے حالیہ برسوں میں کی جانے والی کوششوں کے نتیجے میں، عالمی برادری  ، اب بھارت کو ایک نئے احترام کے ساتھ دیکھتی  ہے۔ دنیا کے مختلف فورموں  پر ہماری فعالیت سے مثبت تبدیلی آنی  شروع  ہو گئی ہے۔  بھارت نے عالمی  پلیٹ فارم  پر  ، جو  احترام  حاصل کیا ہے  ، اس کے نتیجے میں ملک کو نئے مواقع اور ذمہ داریاں بھی ملی ہیں۔ جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں، اس سال  بھارت  جی – 20   ممالک کے گروپ کی صدارت کر رہا ہے۔ عالمگیر بھائی چارے کے اپنے آئیڈیل کے مطابق، ہم سب کے لئے   امن اور خوشحالی  کی خاطر  کھڑے ہیں۔  جی – 20   کی  صدارت  ایک بہتر دنیا کی تعمیر میں تعاون کے لئے بھارت کو انتہائی اہم بنیاد فراہم کرتی ہے۔

  انہوں نے ماحولیات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ترقی اور ماحولیات کے درمیان توازن برقرار رکھنے کے لئے ہمیں قدیم روایات کو ایک نئے زاویے سے دیکھنا ہوگا۔ ہمیں اپنی بنیادی ترجیحات پر بھی نظر ثانی کرنی ہوگی۔ روایتی زندگی کی قدروں کی سائنسی جہتوں کو سمجھنا ہوگا۔ ہمیں ایک بار پھر فطرت کے احترام اور لامحدود کائنات کے سامنے عاجزی کا احساس پیدا کرنا ہو گا۔ میں اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہوں گی  کہ مہاتما گاندھی جدید دور کے ایک  حقیقی  دور اندیش  تھے کیونکہ انہوں نے  بے لگام صنعت کاری  سے ہونے والی آفات کو پہلے ہی بھانپ لیا تھا اور دنیا کو  اپنے طور طریقے کو سدھارنے کے لئے متنبہ کر دیا تھا۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اس زمین پر خوشگوار زندگی گزاریں تو ہمیں اپنے طرز زندگی کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں تجویز کردہ تبدیلیوں میں سے ایک خوراک سے متعلق ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اقوام متحدہ نے  بھارت کی تجویز کو قبول کیا ہے اور سال 2023  ء کو   ‘ دا انٹر نیشنل ایئر آف ملٹس ‘  قرار دیا ہے۔  باجرا جیسے موٹے اناج ہماری  خوراک کے اہم  جزو ہوا کرتے  تھے۔ سماج کے سبھی طبقے  انہیں پھر سے پسند کرنے لگے ہیں۔ ایسے اناج ماحول دوست ہیں کیونکہ یہ کم پانی سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ اناج بھی اعلیٰ سطح کی غذائیت فراہم کرتے ہیں۔ اگر زیادہ سے زیادہ لوگ اپنی خوراک میں موٹے اناج کو شامل کریں تو اس سے ماحولیاتی تحفظ میں مدد ملے گی اور لوگوں کی صحت  میں بھی  سدھار ہو گا۔

جمہوریت  کا ایک اور سال گزر  چکا ہے اور ایک نئے سال کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ بے مثال تبدیلی کا وقت رہا ہے۔ وبا  کے پھیلنے سے دنیا چند ہی دنوں میں بدل گئی تھی۔ پچھلے تین سالوں کے دوران، جب بھی ہمیں لگا کہ ہم نے وائرس پر قابو پا لیا ہے ، تو وائرس پھر کسی بدلی ہوئی شکل میں واپس آ گیا ہے  لیکن اب  اس سے گھبرانے کی  کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم  نے یہ سمجھ  لیا ہے کہ ہماری قیادت، ہمارے سائنسداں  اور ڈاکٹرز، ہمارے منتظمین اور ‘کورونا  جانباز ‘ کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لئے  ہر ممکن کوشش کریں گے اور ہم نے یہ بھی سیکھا ہے کہ ہم اپنے   تحفظ میں کمی نہیں آنے دیں گے اور  چوکس بھی رہیں گے۔

انہوں نے اپنے خطاب میں خاص طور پر انجینئر نگ کے شعبہ میں بے مثال تبدیلیوں کا بھی ذکر کیا۔انہوں نے کہا کہ مختلف علاقوں میں کام کرنے والے کئی نسلوں   کے لوگ  ہماری جمہوریت  کی اب تک کی ترقی کے سفر میں بیش قیمت تعاون کے لئے ستائش کے حقدار ہیں۔ میں کسانوں، مزدوروں، سائنسدانوں اور انجینئروں کے کردار کی  ستائش کرتی  ہوں  ، جن کی اجتماعی قوت ہمارے ملک کو “جے جوان، جے کسان، جے  وگیان، جے  انوسندھان” کے جذبے  سے  آگے بڑھنے  کا اہل بناتی ٍ ہے۔ میں ملک کی ترقی میں  تعاون دینے والے ہر ایک شہری کی  ستائش کرتی ہوں۔  بھارت کی تہذیب اور ثقافت کے سفیر غیر مقیم بھارتیوں کو بھی ، میں سلام پیش کرتی ہوں۔

Recommended