جموں،2 جنوری (انڈیا نیرٹیو)
جموں و کشمیر کے سرحدی ضلع راجوری کے ایک گاؤں میں اتوار کی دیر شام مشتبہ دہشت گردوں نے ایک ہی محلے کے تین مکانات پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجہ میں چار شہری ہلاک اور چھ دیگر زخمی ہو گئے۔
جموں خطہ میں پچھلے کئی سالوں میں اس طرح کا یہ پہلا دہشت گردانہ حملہ ہے
جموں زون کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس مکیش سنگھ نے کہا کہ پولیس نے فوج اور سی آر پی ایف کے ساتھ مل کر راجوری شہر سے تقریباً آٹھ کلومیٹر دور اپر ڈھانگری گاؤں میں حملے کے پیچھے دو “مسلح افراد” کو پکڑنے کے لیے ایک بڑے پیمانے پر تلاشی مہم شروع کی ہے۔
سنگھ نے کہا کہ فائرنگ تین گھروں پر کی گئی جو ایک دوسرے سے تقریباً 50 میٹر کے فاصلے پر تھے۔
تاہم حکام نے بتایا کہ مزید دو زخمی شہری زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے جس سے مرنے والوں کی تعداد چار ہو گئی۔
عینی شاہدین کے حوالے سے حکام نے بتایا کہ شام سات بجے کے قریب گاؤں میں دو مشتبہ دہشت گرد نمودار ہوئے اور تین گھروں پر اندھا دھند فائرنگ کی اور فرار ہو گئے۔ فائرنگ 10 منٹ کے اندر ختم ہوگئی۔
سب سے پہلے، انہوں نے اپر ڈھانگری میں ایک گھر پر حملہ کیا اور پھر وہ 25 میٹر دور چلے گئے اور وہاں کئی لوگوں کو گولی مار دی۔ انہوں نے گاؤں سے بھاگتے ہوئے دوسرے گھر سے 25 میٹر دور ایک اور مکان پر بھی فائرنگ کی۔
انہوں نے کہا کہ کل دس افراد گولیوں کی زد میں آئے اور ان میں سے تین کو گورنمنٹ میڈیکل کالج اسپتال راجوری میں مردہ قرار دیا گیا، جب کہ ایک اور شدید زخمی نے جموں لے جانے کے دوران دم توڑ دیا۔
اہلکار نے بتایا کہ مرنے والوں کی شناخت ستیش کمار، دیپک کمار، پریتم لال اور شیشو پال کے طور پر کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ زخمیوں کی شناخت پون کمار، روہت پنڈت ،سروج بالا، ردھم شرما اور پون کمار کے طور پر ہوئی ہے۔
گورنمنٹ میڈیکل کالج (جی ایم سی) راجوری کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر محمود احمد بجار نے فائرنگ میں چار افراد کی موت کی تصدیق کی اور بتایا کہ زخمیوں میں سے دو کو خصوصی علاج کے لیے جموں لے جایا گیا ہے۔
حکام نے بتایا کہ امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے احتیاطی تدابیر کے طور پر حساس علاقوں میں سیکورٹی فورسسز کی اضافی نفری تعیناتی کی گئی ہے۔
جی ایم سی اسپتال راجوری کے باہر لوگوں نے جمع ہو کر بے گناہوں کے قتل پر پاکستان اور دہشت گردوں کے خلاف نعرے لگائے۔عینی شاہدین نے بتایا کہ مظاہرین نے لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ اور سیکورٹی ایجنسیوں کے خلاف بھی نعرے لگائے۔
حملے کے بعد سیکورٹی فورسز بڑے پیمانے پر تلاشی لے رہے ہیں لیکن ابھی تک حملہ آوروں کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔
یہ واقعہ قصبے میں ایک فوجی کیمپ کے باہر فائرنگ کے واقعے میں دو شہری مارے جانے کے بمشکل دو ہفتے بعد پیش آیا ہے جہاں فوج نے کیمپ کے اندر کام کے لیے جا رہے دو شہریوں کو ہلاک کرنے کا الزام نامعلوم دہشت گردوں پر لگایا تھا۔
وہیں مقامی دیہاتیوں نے الزام لگایا کہ ان دونوں کو کیمپ کے دروازے پر تعینات سپاہیوں نے ہلاک کیا اور واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔