Urdu News

نئے جموں کشمیر میں ”یوم کشمیر“ کی کوئی اہمیت نہیں

Beautiful Dal Lake in Srinagar, Kashmir

 نئے جموں کشمیر میں ”یوم کشمیر“ کی کوئی اہمیت نہیں 

 
پاکستان ہر سال پانچ فروری کو ایک فرضی و نام نہاد یوم کشمیر کا مناتا رہا ہے۔ لیکن پانچ اگست 2019کو آرٹکل 370کے خاتمے کے بعد اب ”نئے جموں کشمیر“ میں اس نام نہاد یوم کشمیر کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے۔ 
جموں و کشمیر کے خصوصی درجے کے خاتمے کے بعد کشمیر کے یو ٹی بننے کے بعد پاکستان کے ہتھکنڈے اب کشمیر میں بے اثر ہو چکے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اس نام نہاد یوم کشمیر کے بارے میں بڑھا چڑھا کر باتیں کرتے تھے۔ حریت کانفرنس کے نیتا سید علی شاہ گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور نام نہاد جموں کشمیر لبرشن فرنٹ کے لیڈر یاسین ملک وغیرہ اس دن پہ جان بوجھ کر بڑے بڑے اعلانات کیا کرتے تھے تاکہ وہ کشمیر کے عوام کو بتا سکیں کہ وہی ان کے سب سے بڑے ہمدرد ہیں۔ لیکن پانچ اگست 2019کو مرکزی حکومت کی دلیری بھرے فیصلے کے بعد یہ نام نہاد کشمیری علیحدگی پسند لیڈرس کا کچھ اتا پتہ نہیں ہے۔ ان میں سے کوئی بھی کشمیر میں نظر نہیں آ رہا ہے جو اپنی وراثت کو آگے بڑھانے کی بات کرے۔ 
پہلی بار 1990میں پانچ فروری کو پاکستان میں میاں نواز شریف کی پہل پر یوم کشمیر منانے کا کام شروع ہوا تھا۔ اس وقت میاں نواز شریف حزب اختلاف کے لیڈر اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ 
پہلی بار 1990میں میاں نواز شریف نے پاکستان میں قومی سطح پر بند کا اعلان کیا تاکہ وہ نام نہاد کشمیر تحریک کو کامیاب بنا سکیں۔ اس کے بعد ہی پاکستان میں 5فروری کو چھٹی کا اعلان کیا گیا۔ 
آرٹکل 370کے خاتمے کے بعد کشمیری عوام نے نام نہاد یوم کشمیر کے تعلق سے کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔  اور پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اس کی پرواہ کئے بنا  اپنے روز مرہ کے کام میں مصروف رہے۔ 
آرٹکل 370کے خاتمے کے بعدجو حالات بنے اور جو ترقیات ہوئیں اس میں کشمیری عوام نے یہ محسوس کیا کہ ان کا مستقبل ہندوستان میں محفوظ ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں پاکستان نے ان کے لئے کچھ بھی اچھا نہیں کیا ہے۔ سنہ 1990سے ہی کشمیری عوام نے صرف تشدد، خون خرابہ، ہڑتال اور افرا تفری ہی دیکھی ہے۔ 
کشمیری عوام اب پاکستان اور ان کے بھیجے ہوئے دہشت گردوں سے تنگ آ چکے ہیں۔ کشمیر میں آرٹکل 370کے خاتمے کے بعد زمینی حقیقت بڑی حد تک بدل چکی ہے۔ سیکورٹی فورسیز کافی حد تک دہشت گردوں کے کمانڈرس اور ان کے چیلے چپاٹوں کو ٹھکانے لگا چکی ہے۔ 
ترقیاتی کام جو گزشتہ کئی برسوں سے لٹکے ہوئے تھے اب وہ مکمل ہونے والے ہیں۔ اور کئی نئے پروجیکٹس کی بنیاد بھی رکھی جا چکی ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران بھی مرکزی حکومت نے اس بات کا خیال رکھا کہ جموں و کشمیر میں ترقیاتی کام نہ رکنے پائے۔ منوج کمار سنہا کے جموں و کشمیر کے لفٹننٹ گورنر بننے کے بعد ترقیاتی کاموں میں تیزی آئی اور نتائج سب کے سامنے ہیں۔ 
پاکستان میں بیٹھے ہوئے آقا اور کشمیر میں ان کے ایجنٹس اب اس بات کو ہضم نہیں کر پا رہے ہیں کہ ”نئے جموں و کشمیر“  میں لوگوں نے اب ان لیڈروں کو سننا بند کر دیا ہے جو انھیں علیحدگی کی راہ پر لے جاتے تھے۔ 
انھیں امید نہیں تھی کہ جموں و کشمیر میں حالات اس قدر تیزی سے بدل جائیں گے۔ اور کشمیری عوام اتنی بے باکی سے پاکستان کی حمایت کرنے والوں کو نکار دیں گے۔ تمام مورچوں پر شکست کھانے کے باوجود ہمارا پڑوسی ملک اپنی عادت سے باز نہیں آ رہا ہے۔ سرحد پار سے کنٹرول ہونے والے بہت سے فیسبک اور ٹویٹر ہنڈلس اور وہاٹس ایپ گروپ کشمیر میں حالات خراب کرنے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ 
لیکن اب انھیں کوئی مقامی مدد نہیں مل پا رہی ہے۔ کشمیری عوام اب یہ سمجھ چکی ہے کہ نوجوانوں کے ہاتھوں میں بندوق نہیں جانے دیں گے۔ کیوں کہ اس سے آخر کار معصوم جانیں جائیں گی اور قبروں کی تعداد بڑھے گی۔ 
جو لوگ نوجوانوں کو برغلا کر سڑکوں پر مظاہرہ کرنے کے لئے لاتے تھے اور انھیں نام نہاد جہاد کی طرف ڈھکیل دیتے تھے وہ اب  بے روزگار ہو  چکے ہیں کیوں کہ ان کی فنڈنگ کی راہ روک دی گئی ہے۔ 
جموں و کشمیر کے عوام کے لئے 5اگست 2019ہی اصل میں یوم کشمیر ہے جس دن مرکزی حکومت نے خصوصی درجہ ختم کیا تھا۔ کیوں کہ اسی دن سے کشمیریوں کے لئے حالات تیزی سے سازگار ہونے لگے۔ پتھر چلانے والے، بندوق لہرانے والے اور زبردستی دکانیں بند کرا کے نارمل زندگی کو برباد کرنے والے اب کہیں نظر نہیں آتے، نہ ہی گیلانی، میر واعظ اور یاسین ملک جیسے لوگوں کی اب کوئی اہمیت ہے۔  
نئے جموں کشمیر میں ”یوم کشمیر“ کی کوئی اہمیت نہیں 
 
پاکستان ہر سال پانچ فروری کو ایک فرضی و نام نہاد یوم کشمیر کا مناتا رہا ہے۔ لیکن پانچ اگست 2019کو آرٹکل 370کے خاتمے کے بعد اب ”نئے جموں کشمیر“ میں اس نام نہاد یوم کشمیر کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے۔ 
جموں و کشمیر کے خصوصی درجے کے خاتمے کے بعد کشمیر کے یو ٹی بننے کے بعد پاکستان کے ہتھکنڈے اب کشمیر میں بے اثر ہو چکے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اس نام نہاد یوم کشمیر کے بارے میں بڑھا چڑھا کر باتیں کرتے تھے۔ حریت کانفرنس کے نیتا سید علی شاہ گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور نام نہاد جموں کشمیر لبرشن فرنٹ کے لیڈر یاسین ملک وغیرہ اس دن پہ جان بوجھ کر بڑے بڑے اعلانات کیا کرتے تھے تاکہ وہ کشمیر کے عوام کو بتا سکیں کہ وہی ان کے سب سے بڑے ہمدرد ہیں۔ لیکن پانچ اگست 2019کو مرکزی حکومت کی دلیری بھرے فیصلے کے بعد یہ نام نہاد کشمیری علیحدگی پسند لیڈرس کا کچھ اتا پتہ نہیں ہے۔ ان میں سے کوئی بھی کشمیر میں نظر نہیں آ رہا ہے جو اپنی وراثت کو آگے بڑھانے کی بات کرے۔ 
پہلی بار 1990میں پانچ فروری کو پاکستان میں میاں نواز شریف کی پہل پر یوم کشمیر منانے کا کام شروع ہوا تھا۔ اس وقت میاں نواز شریف حزب اختلاف کے لیڈر اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ 
پہلی بار 1990میں میاں نواز شریف نے پاکستان میں قومی سطح پر بند کا اعلان کیا تاکہ وہ نام نہاد کشمیر تحریک کو کامیاب بنا سکیں۔ اس کے بعد ہی پاکستان میں 5فروری کو چھٹی کا اعلان کیا گیا۔ 
آرٹکل 370کے خاتمے کے بعد کشمیری عوام نے نام نہاد یوم کشمیر کے تعلق سے کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔  اور پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اس کی پرواہ کئے بنا  اپنے روز مرہ کے کام میں مصروف رہے۔ 
آرٹکل 370کے خاتمے کے بعدجو حالات بنے اور جو ترقیات ہوئیں اس میں کشمیری عوام نے یہ محسوس کیا کہ ان کا مستقبل ہندوستان میں محفوظ ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں پاکستان نے ان کے لئے کچھ بھی اچھا نہیں کیا ہے۔ سنہ 1990سے ہی کشمیری عوام نے صرف تشدد، خون خرابہ، ہڑتال اور افرا تفری ہی دیکھی ہے۔ 
کشمیری عوام اب پاکستان اور ان کے بھیجے ہوئے دہشت گردوں سے تنگ آ چکے ہیں۔ کشمیر میں آرٹکل 370کے خاتمے کے بعد زمینی حقیقت بڑی حد تک بدل چکی ہے۔ سیکورٹی فورسیز کافی حد تک دہشت گردوں کے کمانڈرس اور ان کے چیلے چپاٹوں کو ٹھکانے لگا چکی ہے۔ 
ترقیاتی کام جو گزشتہ کئی برسوں سے لٹکے ہوئے تھے اب وہ مکمل ہونے والے ہیں۔ اور کئی نئے پروجیکٹس کی بنیاد بھی رکھی جا چکی ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران بھی مرکزی حکومت نے اس بات کا خیال رکھا کہ جموں و کشمیر میں ترقیاتی کام نہ رکنے پائے۔ منوج کمار سنہا کے جموں و کشمیر کے لفٹننٹ گورنر بننے کے بعد ترقیاتی کاموں میں تیزی آئی اور نتائج سب کے سامنے ہیں۔ 
پاکستان میں بیٹھے ہوئے آقا اور کشمیر میں ان کے ایجنٹس اب اس بات کو ہضم نہیں کر پا رہے ہیں کہ ”نئے جموں و کشمیر“  میں لوگوں نے اب ان لیڈروں کو سننا بند کر دیا ہے جو انھیں علیحدگی کی راہ پر لے جاتے تھے۔ 
انھیں امید نہیں تھی کہ جموں و کشمیر میں حالات اس قدر تیزی سے بدل جائیں گے۔ اور کشمیری عوام اتنی بے باکی سے پاکستان کی حمایت کرنے والوں کو نکار دیں گے۔ تمام مورچوں پر شکست کھانے کے باوجود ہمارا پڑوسی ملک اپنی عادت سے باز نہیں آ رہا ہے۔ سرحد پار سے کنٹرول ہونے والے بہت سے فیسبک اور ٹویٹر ہنڈلس اور وہاٹس ایپ گروپ کشمیر میں حالات خراب کرنے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ 
لیکن اب انھیں کوئی مقامی مدد نہیں مل پا رہی ہے۔ کشمیری عوام اب یہ سمجھ چکی ہے کہ نوجوانوں کے ہاتھوں میں بندوق نہیں جانے دیں گے۔ کیوں کہ اس سے آخر کار معصوم جانیں جائیں گی اور قبروں کی تعداد بڑھے گی۔ 
جو لوگ نوجوانوں کو برغلا کر سڑکوں پر مظاہرہ کرنے کے لئے لاتے تھے اور انھیں نام نہاد جہاد کی طرف ڈھکیل دیتے تھے وہ اب  بے روزگار ہو  چکے ہیں کیوں کہ ان کی فنڈنگ کی راہ روک دی گئی ہے۔ 
جموں و کشمیر کے عوام کے لئے 5اگست 2019ہی اصل میں یوم کشمیر ہے جس دن مرکزی حکومت نے خصوصی درجہ ختم کیا تھا۔ کیوں کہ اسی دن سے کشمیریوں کے لئے حالات تیزی سے سازگار ہونے لگے۔ پتھر چلانے والے، بندوق لہرانے والے اور زبردستی دکانیں بند کرا کے نارمل زندگی کو برباد کرنے والے اب کہیں نظر نہیں آتے، نہ ہی گیلانی، میر واعظ اور یاسین ملک جیسے لوگوں کی اب کوئی اہمیت ہے۔  

Recommended