کشمیری نوجوانوں نے بندوق کو نہ کہنے اور جموں و کشمیر میں حالات معمول پر آنے سے لائن آف کنٹرول (ایل او سی( کے اس پار بیٹھے عسکریت پسندوں کے ہینڈلرز کو بے چین کر دیا ہے۔جموں و کشمیر کو جلتا رکھنے کا ان کا منصوبہ ناکام ہو رہا ہے۔ وہ عسکریت پسندی کو زندہ رکھنے کے لیے دوسرے ذرائع تلاش کر رہے ہیں، کیوں کہ جموں و کشمیر میں دہشت گرد گروپوں میں مقامی بھرتی کم ہو رہی ہے۔
جموں و کشمیر پولیس کے مطابق گزشتہ 33 دنوں کے دوران سری نگر میں تین پاکستانی عسکریت پسند مارے گئے ہیں اور شہر میں مزید غیر ملکی عسکریت پسندوں کے موجود ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اپنی پرانی چالوں پر واپس آ گیا ہے۔ مقامی لوگوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے، اس نے تنازعات کو زندہ رکھنے کے لیے پاکستانی نژاد الٹرا کو متحرک کر دیا ہے۔5 اگست 2019 کے بعد جب مرکز نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور اسے دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا ۔ عسکریت پسندوں نے جموں و کشمیر خصوصاً کشمیر کے علاقے میں حالات کو غیر مستحکم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
لیکن جموں و کشمیر کی حالت زار میں تبدیلی نے نوجوانوں کے لیے مواقع کی بہتات کھول دی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ہتھیار اٹھانے، پتھراؤ کرنے اور مظاہرے کرنے سے ان کے مقصد میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ وہ وقتاً فوقتاً انہیں فراہم کیے گئے روزگار اور دیگر مواقع پر قبضہ کرتے چلے گئے۔مقامی نوجوان عسکریت پسندی میں دلچسپی کھو رہے ہیں اور بنیاد پرستی کے جال میں پھنسنے سے انکار کر رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ جموں و کشمیر میں تشدد کو فروغ دینے والے لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث بن گئے ہیں۔ سری نگر میں پاکستانی عسکریت پسندوں کی موجودگی اس بات کا اشارہ ہے کہ سابق نے کشمیر کے معاملات میں مداخلت بند نہیں کی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ تشدد کسی بھی قیمت پر جاری رہے۔