آٹھ اضلاع میں کرفیو، پانچ دن تک انٹرنیٹ سروس بند
صورت حال پر قابو پانے کے لیے فوج کے جوانوں کا فلیگ مارچ
نئی دہلی، 04 مئی (انڈیا نیرٹیو)
منی پور کے کئی اضلاع میں تشدد پھوٹ پڑنے کے بعد صورتحال پر قابو پانے کے لیے بھارتی فوج کو طلب کر لیا گیا ہے۔ کئی علاقوں میں فوج کے جوانوں کو تعینات کیا گیا ہے۔ احتیاطی تدابیر کے طور پر اگلے چند دنوں کے لیے انٹرنیٹ خدمات معطل کر دی گئی ہیں۔زیادہ سے زیادہ لوگوں کو محفوظ علاقوں میں منتقل کرنے اور امن و امان کی بحالی کے لیے کارروائی جاری ہے۔ اب تک تقریباً 4 ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔
بدھ کو منی پور کے کئی اضلاع میں قبائلی تحریک کے دوران تشدد پھوٹ پڑا، جس سے ریاستی حکومت نے اگلے پانچ دنوں کے لیے انٹرنیٹ خدمات معطل کر دیں۔ اس کے علاوہ امپھال ویسٹ، کاکچنگ، تھوبل، جیریبام، بشنو پور، چورا چند پور، کانگپوکپی اورتینگ نوپال اضلاع میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ حکم نامے میں بتایا گیا کہ ریاست میں براڈ بینڈ خدمات کام کر رہی ہیں۔
منی پور کے وزیر داخلہ ایچ جی پرکاش نے کہا کہ سماج دشمن عناصر سوشل میڈیا پر نفرت انگیز تقاریر اور ویڈیوز گردش کر رہے ہیں، جس سے عوام کو اکسایا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے حکومت نے موبائل ڈیٹا سروسز کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس کے باوجود بگڑتی ہوئی صورتحال پر قابو پانے کے لیے سول انتظامیہ کی درخواست پر فوج نے چارج سنبھال لیا ہے۔ بھارتی فوج نے ایک بیان میں کہا کہ منی پور میں انتظامیہ کی درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے فوج اور آسام رائفلز کو 3 مئی کی شام سے تمام متاثرہ علاقوں میں تعینات کر دیا گیا ہے۔
تشدد سے متاثرہ علاقوں سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو محفوظ علاقوں میں منتقل کرنے اور امن و امان کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ فوج اور آسام رائفلز نے منی پور میں تشدد کو کم کرنے کے لیے قدم اٹھایا ہے۔
اب تک 4000 دیہاتیوں کو مختلف مقامات پر فوج اور ریاستی حکومت کے احاطے میں پناہ دی گئی ہے۔ صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے فلیگ مارچ کیا جا رہا ہے۔
تشدد کیوں ہوا؟
میتئی برادری کو ایس ٹی زمرہ میں شامل کرنے کے مطالبہ کے خلاف 3 مئی کو ریلی کا انعقاد کیا گیا تھا۔ ریلی کا اہتمام آل ٹرائبل اسٹوڈنٹس یونین منی پور نے کیا تھا۔ اس دوران تشدد پھوٹ پڑا۔
مظاہرین نے کئی گھروں میں توڑ پھوڑ کی ہے۔ ریلی میں ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین نے شرکت کی۔ اس دوران توربنگ علاقے میں قبائلیوں اور غیر قبائلیوں کے درمیان تشدد پھوٹ پڑا۔ اس کے بعد کئی دوسرے اضلاع میں بھی تشدد کی خبریں آئیں۔ پولیس نے بھیڑ پر قابو پانے کے لیے آنسو گیس کے گولے داغے۔