Urdu News

عدلیہ میں صنفی مساوات کے لیے بہت کچھ بہتر کرنے کی ضرورت ہے: صدر کووند

عدلیہ میں صنفی مساوات کے لیے بہت کچھ بہتر کرنے کی ضرورت ہے: صدر کووند

صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے عدلیہ میں خواتین کی حصہ داری میں اضافے کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ اگست میں سپریم کورٹ کے نو ججوں نے حلف لیا جن میں تین خواتین بھی شامل ہیں۔ یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے، حالانکہ صنفی مساوات کی سمت میں اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

صدر جمہوریہ کووند ہفتہ کے روز یہاں سپریم کورٹ کے زیر اہتمام یوم آئین کی تقریب میں اختتامی کلمات دے رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یوم آئین ہماری جمہوریت کا عظیم تہوار ہے۔ یہ معلوم اور نامعلوم مرد اور عورتوں کے تئیں ہمارے  قرض کا اعادہ کرنے کا دن ہے،، جنہوں نے ہمارے لیے ایک آزاد جمہوریہ میں اپنی زندگی گزارنا ممکن بنایا۔ صدرجمہوریہ نے کہا کہ یہ ہمارے لیے ان کے ذریعہ بنائی گئی راہ پر چلتے رہنے کے ہمارے عزم کا اعادہ کرنے کا بھی دن ہے۔

صدرجمہوریہ نے کہا کہ آئین ہمارے اجتماعی سفر کا روڈ میپ ہے۔ اس کے مرکز میں انصاف، آزادی، مساوات اور بھائی چارہ ہے۔ انصاف ایک اہم بنیاد ہے جس کے گرد جمہوریت گھومتی ہے۔ اگر ریاست کے تین ادارے عدلیہ، مقننہ اور ایگزیکٹو ایک ہم آہنگ وجود میں ہیں تو یہ مزید مضبوط ہو جاتی ہے۔ ہر ادارے کا آئین میں اپنا ایک متعین مقام ہوتا ہے جس کے اندر وہ کام کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستانی روایت میں ججوں کا تصور دیانتداری اورغیر جانبداری کی مثال کے کے طور پر کیا جاتا ہے۔ ہمارے پاس ایسے ججوں کی وراثت کی ایک بھرپور تاریخ ہے جو اپنی دور اندیشی اور برتاؤ کے واضح بیانات کے لیے جانے جاتے ہیں جو آنے والی نسلوں کے لیے پہچان بن گئے ہیں۔ انہوں نے خوشی کا اظہار کیا کہ ہندوستانی عدلیہ ان اعلیٰ ترین معیارات پر عمل پیرا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عدلیہ نے اپنے لیے ایک اعلیٰ معیار قائم کیا ہے۔ لہٰذا ججوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ عدالتوں میں اپنے بیانات میں انتہائی ذمہ داری  کا مظاہرہ کریں۔ غیر دانشمندانہ ریمارکس، خواہ  نیک نیتی سے کیے جائیں، عدلیہ کو نیچا دکھانے کے لیے قابل اعتراض تشریحات کی گنجائش چھوڑ دیتی ہے۔

عدالتوں میں برسوں سے زیر التوا مقدمات کا ذکر کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور حل کے لیے مناسب تجاویز بھی دی گئی ہیں۔ اس کے باوجود بحث جاری ہے اور زیر التوا بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اس کا اثر معاشی ترقی پر بھی پڑتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرس قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی راستہ نکالیں۔ ٹیکنالوجی اس عمل میں ایک بہترین معاون  ثابت ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وبائی مرض نے عدلیہ کے شعبے میں انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کو اپنانے میں تیزی لائی ہے۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ اس شعبے میں نوجوان ذہنوں کو انصاف اور شہریوں کی خدمت کے لیے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے استعمال کی ترغیب دیں گے۔

Recommended