Urdu News

مسلم خاندان سات دہائیوں سے قومی پرچم پر اشوک چکر چھاپنے کا کام کررہا ہے

ریاست بہار کے ضلع گیا میں ایک مسلم خاندان سات دہائیوں سے قومی پرچم "ترنگا" پر اشوک چکر لگا رہا ہے

ریاست بہار کے ضلع گیا میں ایک مسلم خاندان سات دہائیوں سے قومی پرچم "ترنگا" پر اشوک چکر لگا رہا ہے۔ حب الوطنی کے احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے کم پیسے ملنے کے بعد بھی یہ خاندان قدیم روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ اس خاندان کی اب تیسری نسل ترنگے پر اشوک چکر چھاپنے کے کام کر رہی ہے۔ آزادی کے 75ویں سالگرہ کے موقع پر اب تک یہ کنبہ ایک لاکھ سے زیادہ اشوک چکر چھاپ چکا ہے۔ آزادی کی75ویں سالگرہ کے موقع پر ملک امرت مہوتسو منارہا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی اپیل پر" ہر گھر ترنگا مہم " جاری ہے اور ملک کے شہریوں کی جانب سے گھروں پر قومی پرچم لہرایا جا رہا ہے۔حالانکہ  ضلع میں کھادی کے کپڑوں سے بنے قومی پرچم پر ہاتھوں سے اشوک چکر کی چھپائی جاری ہے اور بازاروں میں اسکی طلب بڑھ گئی ہے۔ شہر گیا کا ایک مسلم خاندان ترنگے پر اشوک چکر چھاپنے کا کام کررہا ہے۔ ان کے یہاں قومی پرچم پر اشوک چکر لگوانے کے لیے پرچم کا اسٹاک لگا ہوا ہے۔ دراصل یہ خاندان برسوں سے اس کام کو انجام دے رہا ہے اور اب تو ان کی تیسری نسل بھی اس خاندانی پیشہ کو اختیار کرچکی ہے۔

اس خاندان کو نہ صرف گیا بلکہ جہان آباد، نوادہ، اورنگ آباد اور جھارکھنڈ کے ہزاری باغ، چترا، کوڈرما، پلامو اور دیگر اضلاع کے سرکاری کھادی بھنڈار و غیرہ سرکاری اداروں سے اشوک چکر چھاپنے کا آرڈر ملتا ہے۔شہر گیا کے معروف گنج کے رہنے والے محمد شمیم اور ان کی اہلیہ سیما پروین اور ان کے چار بیٹے اور ایک بیٹی بھی ان دنوں قومی پرچم پر چکر چھاپنے میں مصروف ہیں۔ محمد شمیم نے کہا کہ ان کے والد نے آزادی کے بعد ترنگے پر اشوک چکر چھاپنے کا کام شروع کیا تھا۔ والد کے انتقال کے بعد وہ اور ان کے بھائیوں کے علاوہ ان کی اہلیہ سیما پروین اور بیٹے محمد نواب، محمد صدام، چھوٹو، شاہ رخ اور بیٹی کہکشاں پروین بھی اس کام کو بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کھادی بھنڈار کے ذریعے سے جھنڈا سیل کر انہیں ملتا ہے، جس پر وہ چکر چھاپتے ہیں۔ یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے موقع پر پچاس ہزار کے قریب قومی پرچم پر اشوک چکر چھاپنے کا کام ہوتا ہے حالانکہ رواں برس امرت مہوتسو اور ہر گھر ترنگا مہم کی وجہ سے اب تک ایک لاکھ سے زیادہ جھنڈوں پر اشوک چکر چھاپ چکے ہیں۔  انہوں نے مزید کہا کہ اس کام میں انہیں لاگت اور محنت سے کافی کم رقم ملتی ہے، پھر بھی ان کا خاندان 70 برسوں سے یہ کام کرتا چلا ا?رہا ہے، چونکہ ترنگا ہمارے ملک کی شان اور فخر ہے۔ اس قومی پرچم کے لیے ہمارے اسلاف نے قربانیاں پیش کی ہیں، اس لئے مزدوری نہ ملنے یا پھر سرکاری وظیفہ نہ ملنے کے بعد بھی اس کام کو نہیں چھوڑیں گے،کیونکہ اس کام سے فخر محسوس ہوتا ہے اور یہ ہمارے حب الوطنی کے جذبے کا تقاضہ بھی ہے۔ شمیم کی اہلیہ سیما پروین نے کہا کہ انہیں اس کام سے خوشی محسوس ہوتی ہے۔ پرانی روایت اور کام کو برقرار رکھنا انکا فرض ہے۔ اپنی زندگی میں اپنے بچوں کو اس کی سیکھ دے چکی ہوں۔ جب تک ہاتھوں سے چھپائی کا کام ہوتا رہے گا، تب تک یہ کام انکا کنبہ کرتا رہے گا۔

مسلمانوں کے حب الوطنی پر سوال کھڑا کرنے والوں پر شمیم اور ان کے کنبہ کا کہنا ہے کہ انکا خاندان محب وطن ہونے کی ایک بہترین مثال ہے۔ مسلمانوں کو اپنے ملک اور اس کی نشان " ترنگا " سے بے انتہا محبت ہے۔ مسلمانوں کو محب وطن ہونے کی مثال پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ جنہیں مثال چاہیے انہیں انڈیا گیٹ سے لیکر ملک کی ہر جگہ پر اسکی مثال ملے گی حالانکہ انکا ماننا ہے کہ فرقہ پرست کسی ایک مذہب میں نہیں بلکہ ایسے لوگ سبھی جگہ ملیں گے جو ا?پسی اتحاد، اپنی ثقافت، روایت اور انسانیت کے لیے خطرہ ہوتے ہیں۔ قومی پرچم کسی ایک ذات، مذہب، علاقہ اور زبان کے ماننے والوں کا نہیں ہے بلکہ یہ ملک کا پرچم ہے اور ملک میں بسنے والے ہر شخص کا پرچم ہے۔ اسکی عزت و احترام کرنا ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی اور تمام مذاہب برادی کے ماننے والے بچے، بوڑھے، جوان، مرد و عورت سب پر لازم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مشینوں نے چھپائی کے کاموں کی رفتار کو متاثر کیا ہے چونکہ انکا تعلق رنگریز برادری سے ہے اور ابتدا سے یہ برادری چھپائی اور رنگائی کے کاموں کو انجام دیتا آ رہا ہے۔ نئی تکنیک آنے کے بعد اس برادری کا کام متاثر ہوا ہے لیکن اس مرتبہ امرت مہوتسو کی وجہ سے کام بڑھا ہے اور توقع ہے کہ وزیر اعظم کی مہم " لوکل فار ووکل " کے تحت روایتی کام میں اضافہ ہوگا۔ قابل ذکر ہے کہ اشوک چکر جو امن اور سچائی کا مظہر ہے۔ اس کی چھپائی کر کے یہ خاندان فخر محسوس کرتا ہے گویا کہ قومی پرچم کی حفاظت اور اس کے احترام اور وقار کی برقراری کو اولین ذمہ داری سمجھتا ہے، دراصل یہ حقیقت بھی ہے کہ قومی پرچم ہماری شناخت اور ہمارا فخر ہے تاہم اس خاندان کو حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے کسی طرح کا اعزاز نہیں بخشا گیا ہے، جس سے ان میں مایوسی بھی ہے۔

Recommended