بہار میں کوشیشوراستھان کے بعد جے ڈی یو نے تاراپور اسمبلی سیٹ بھی جیت لی ہے۔ ضمنی انتخاب میں نتیش کا تیر صحیح نشانے پر لگا ہے۔دونوں نشستوں پر کامیابی ملی ہے۔ وہیں لالو پرساد کی انٹری کے باوجود آرجے ڈی ایک بھی سیٹ نہیں نکال سکی۔ تارا پور میں جے ڈی یو کے امیدوار راجیو کمار سنگھ نے آر جے ڈی امیدوار ارون کمار ساہ کو 3821 ووٹوں سے شکست دی۔ راجیو کمار سنگھ کو 78966 ووٹ ملے جب کہ ارون کمار ساہ کو 75145 ووٹ ملے۔
کوشیشوراستھان میں ہزاری خاندان نے پھر جیت حاصل کی۔ یہاں لالو یادو کا مسہر کارڈ فیل ہوگیا۔ کوشیشوراستھان میں جے ڈی یو کے امن ہزاری نے 12 ہزار 698 ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی۔ انہیں کل59,882 ووٹ ملے۔ وہیں آر جے ڈی کے گنیش بھارتی کو 47,184 ووٹ ملے۔ وہیں نتائج آنے سے پہلے ہی سابق وزیر اعلی اور ہم سپریمو جیتن رام مانجھی نے جیت کے لیے جے ڈی یو کو پیشگی مبارک باد دی تھی۔
ادھر شکست کے بعد لالو پرساد کے بڑے بیٹے تیج پرتاپ یادو نے کہا کہ کچھ لوگوں نے پارٹی کو برباد کر دیا ہے۔ جگدانند سنگھ، سنیل سنگھ اور شیوانند تیواری نے پارٹی کو شکست دینے کا منصوبہ بنایا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ والد کوتشہیر میں لے جا کر انہیں بھی شکست دینے کا کام کیا۔
وہیں دونوں جگہوں پر کانگریس کا برا حال رہا۔ کانگریس کی کمزور کارکردگی پر پارٹی کے اندر ناراضگی کھل کر سامنے آنے لگی ہے۔ پہلے رجحان کے بعد پارٹی دفتر صداقت آشرم میں خاموشی چھائی رہی۔ سابق ایم ایل اے رشی مشرا نے ریاستی صدر مدن موہن جھا سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ جھا کو شکست کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔
واضح ہو آر جے ڈی نے کوشیشوراستھان (ریزرو) سیٹ سے مسہر امیدوار کھڑا کر کے لڑائی کو دلچسپ بنا دیا تھا۔ ماہرین نے بتایا کہ وہاں مسہرکی اچھی خاصی آبادی ہے۔ اس کی وجہ سے لالو کا یہ کارڈ کامیاب ہوسکتا ہے، لیکن جیسے جیسے گنتی آخری راؤنڈ میں پہنچ رہی تھی جے ڈی یو مضبوط ہوتی نظر آرہی تھی۔
تارا پور میں دھیمی گنتی پر آر جے ڈی ناراض
تارا پور میں گنتی کی سست رفتار سے آر جے ڈی ناراض ہوگئی۔ آر جے ڈی نے تارا پور میں گنتی کی سست رفتار پر حکومت کو نشانہ بنایا۔ سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ تارا پور میں ووٹوں کی گنتی کو 2020 کے عام انتخابات کی طرح جان بوجھ کر دھیمی کرائی جارہی ہے۔ حکومت بہار کا رات تک گھسیٹنے کا منصوبہ ہے! تمام آر جے ڈی حامی، کارکن، لیڈر ہوشیار رہیں!
تیجسوی نے ووٹوں کی گنتی سے پہلے دھاندلی کا الزام لگایا
ووٹوں کی گنتی شروع ہوتے ہی دربھنگہ پہنچے تیجسوی یادو نے دھاندلی کا خدشہ ظاہر کیا۔ انہوں نے حکومت سے سوال کیا کہ جے ڈی یو کے لیے ووٹ مانگنے والوں کی ڈیوٹی گنتی میں کیسے شامل کی گئی ہے۔ سنجیو کپور کو ریٹرننگ افسرکیسے بنائے گئے؟ تیجسوی نے دعویٰ کیا کثیر ووٹوں سے ہماری جیت ہوگی۔ انتظامیہ یا کچھ لوگ اگر گڑ بڑی کریں گے تو ہم یہاں ہیں، اس لئے ہم دربھنگہ آئے ہیں۔ ہماری نظر ہر کسی پر ہے۔ ویں لالو یادو نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ دونوں سیٹوں پر ہماری جیت ہوگی۔
کوشیشوراستھان میں ہزاری خاندان کارہا غلبہ
کوشیشوراستھان اسمبلی سیٹ 2009 میں نئی حد بندی کے تحت تشکیل دی گئی تھی۔ یہاں 2010 میں پہلا اسمبلی انتخابات ہوا جس میں ششی بھوشن ہزاری نے انتخابات جیتے تھے۔ انہوں نے 2015 اور 2020 کے اسمبلی انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کی تھی۔ وہ 2020 کی اسمبلی کی مدت پوری نہیں کر سکے۔ طویل علالت کے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ اس وجہ سے وہاں ضمنی انتخاب ہو ا، جس میں جے ڈی یو نے ان کے بیٹے امن ہزاری کو امیدوار بنایا تھا۔
ایم ایل اے کی موت کے بعد خالی ہوئی تھی سیٹیں
تارا پور اور کوشیشوراستھان کے ایم ایل اے کی موت کے بعد دونوں سیٹیں خالی ہوئی تھی۔ تارا پور کے ایم ایل اے میوالال چودھری کی کورونا سے موت ہو گئی۔ وہیں کوشیشوراستھان کے ایم ایل اے ششی بھوشن ہزاری کی موت طویل علالت کے بعد ہوگئی تھی۔ دونوں ایم ایل اے جے ڈی یو سے تھے۔ 30 اکتوبر کو ہونے والی پولنگ میں دونوں سیٹوں پر کل 49.5 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔
ضمنی انتخاب میں مہاگٹھ بندھن ٹوٹ گئے
ضمنی انتخاب میں آر جے ڈی اور کانگریس کا اتحاد ٹوٹ گیا۔ جہاں آر جے ڈی نے دونوں سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے، وہیں جواب میں کانگریس نے بھی دونوں سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے۔ آر جے ڈی نے تارا پور سے ارون شاہ اور کوشیشوراستھان سے گنیش بھارتی کو میدان میں اتارا تھا۔ چوں کہ کوشیشوراستھان ایک ریزرو اسمبلی حلقہ ہے، اس لیے کانگریس نے اپنے پرانے امیدوار اشوک رام کے بیٹے اتھیریک کمار کو میدان میں اتارا تھا۔ ساتھ ہی راجیش مشرا کو تارا پور سے امیدوار بنائے تھے۔ ان سب کے علاوہ تیسر متبادل چراغ پاسوان بھی تھے۔ انہوں نے کوشیشور استھان سے انجو دیوی کو میدان میں اتارا تھا۔ تار ا پور سے چندن سنگھ پر اعتماد کیا تھا۔