کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق وزیر اعلی، غلام نبی آزاد نے ہفتہ کے روز کہا کہ حکومت ہند کے پاس جموں و کشمیر میں انتخابات میں تاخیر کی کوئی واضح وجہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ برسوں کے دوران گورنر راج نافذ کیا گیا تھا کیونکہ وادی میں ملی ٹینسی عروج پر تھی اور کسی کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کے بعد جموں و کشمیر میں کئی کامیاب انتخابات ہوئے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جموں و کشمیر میں حالات معمول پر ہیں۔ اگر بی ڈی سی، ڈی ڈی سی اور پنچائتی انتخابات کامیابی سے کرائے گئے تو اسمبلی انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کی وجہ کیا ہے؟ آزاد نے کہا کہ مرکز کی طرف سے یہ ایک عجیب بہانہ ہے کہ جموں و کشمیر میں حالات معمول پر نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف مرکز کا دعویٰ ہے کہ جموں و کشمیر کے ہر کونے میں پرامن ماحول ہے لیکن دوسری طرف وہ کہتے ہیں کہ حالات معمول پر آنے کے بعد انتخابات ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت روزگار فراہم کرنے کے بجائے ڈیڈ ووڈ کے نام پر ملازمین کو فارغ کر رہی ہے اور ہر ہفتے 10 سے 20 ملازمین کو ان کی خدمات سے فارغ کیا جا رہا ہے۔اْنہوں نے پوچھا کہ ”کیا ڈیڈ ووڈ پالیسی صرف جموں و کشمیر کے لیے ہے پورے ہندوستان کے لیے نہیں؟‘۔ آزاد نے کہا کہ گزشتہ کئی سالوں سے جموں و کشمیر میں مقبول حکومت اور منتخب نمائندوں کی عدم موجودگی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کی ترقی کے لیے اب انتخابات ضروری ہیں۔ آزاد نے مزید کہا کہ منتخب نمائندے لوگوں تک پہنچیں گے اور جموں و کشمیر کی اقتصادی ترقی میں مدد کریں گے اور دونوں خطوں میں رہنے والے نوجوانوں کے روزگار کے مطالبات کو فروغ دیں گے۔انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں مقبول حکومت نئی سڑکوں، پلوں کی تعمیر کے دروازے کھولے گی اورUT کے صنعتی شعبے کو فروغ دے گی۔ان ترقیاتی کاموں سے مزدوروں، مستریوں، ٹھیکیداروں کو روزگار ملے گا۔ عوامی حکومت کے وجود میں آنے کے بعد لوگوں کو مناسب ذریعہ معاش ملے گا۔ لیکن تمام کام آج تک التواکا شکار ہیں۔
صرف چند ترقیاتی پراجیکٹس پر کام جاری ہے تاکہ حکمران جماعت کے ٹھیکیداروں کو روزی ملے، ورنہ جموں و کشمیر میں کسی پروجیکٹ پر کام شروع نہیں کیا گیا ہے۔ آزاد نے کہا کہ جموں و کشمیر کے پہاڑی علاقے جہاں سینکڑوں مکانات ہیں بجلی، سڑکیں اور ہر بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ "ان لوگوں کی دیکھ بھال کون کرے گا جو ایسے پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں؟ ان کے حقیقی مطالبات کو پورا کرنے کے علاوہ صرف حکومت کا ایک منتخب نمائندہ ہی ان تک پہنچ سکتا ہے اور ان کے مسائل سن سکتا ہے۔ آزاد نے کہا کہ چار سال بہت لمبا عرصہ ہے اور جموں و کشمیر کے عوام ایک عوامی حکومت کی عدم موجودگی میں ان برسوں کو بھگت رہے ہیں۔