پیگاسس پر سپریم کورٹ میں درخواستوں کی سماعت 10اگست تک ملتوی
نئی دہلی، 05 اگست (انڈیا نیرٹیو)
سپریم کورٹ 10 اگست کو پیگاسس جاسوسی کی تحقیقات کی درخواستوں کی سماعت کرے گی۔ چیف جسٹس این وی رمنا کی سربراہی میں بنچ نے تمام درخواست گزاروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اپنی درخواست کی ایک کاپی مرکزی حکومت کو فراہم کریں۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے میں مرکزی حکومت کو نوٹس جاری نہیں کیا۔ عدالت نے کہا کہ مرکزی حکومت کی دلیل سنے بغیر نوٹس جاری نہیں کرے گی۔ سماعت کے دوران عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کپل سبل سے پوچھا کہ 2019 میں ایسی بات منظر عام پر آئی تھی کہ جاسوسی کی جا رہی تھی۔ دو سال بعد آج درخواست کیوں دائر کی گئی ہے۔ تب سبل نے کہا کہ تب یہ معلوم نہیں تھا کہ اس جاسوسی کا دائرہ کتنا بڑا ہے۔ سبل نے کہا کہ آج صبح معلوم ہوا کہ سپریم کورٹ کے ایک رجسٹرار کی بھی جاسوسی کی جا رہی ہے۔
سپریم کورٹ میں اب تک پانچ درخواستیں دائر کی گئی ہیں جس میں پیگاسس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ان میں ایڈوکیٹ منوہر لال شرما، سی پی ایم کے رکن جان برٹاس، سینئر صحافی این رام اور ششی کمار، پرانجوئے ٹھاکرتا اور پانچ صحافی اور ایڈیٹرز گلڈ کی درخواستیں شامل ہیں۔
Supreme Court starts hearing a batch of petitions seeking a court-monitored probe into the reports of the government allegedly using Israeli software Pegasus to spy on politicians, activists, and journalists pic.twitter.com/plmlloCCWY
— ANI (@ANI) August 5, 2021
عدالت عظمیٰ نے جمعرات کو پیگاسس جاسوسی کیس میں درخواستوں کی کاپیاں مرکزی حکومت کو حوالے کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ اگر میڈیا رپورٹس سچ ہیں تو الزامات سنگین ہیں۔عدالت نے معاملہ کی سماعت اگلے منگل کے لیے مقرر کی لیکن مرکزی حکومت کو کوئی باقاعدہ نوٹس جاری نہیں کیا۔چیف جسٹس این وی رمن اور جسٹس سوریہ کانت پر مشتمل ڈویژن بنچ نے تمام درخواست گزاروں کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد انہیں درخواستوں کی کاپی مرکزی حکومت کے حوالے کرنے کی ہدایت دی۔
سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ ڈویژن بنچ مرکزی حکومت کی موجودگی کے بغیر معاملے کی مزید سماعت نہیں کرسکتی۔ تاہم عدالت نے ابھی تک اس معاملے میں باضابطہ نوٹس جاری نہیں کیا ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ صحافیوں ، اپوزیشن رہنماؤں اور سماجی کارکنوں کی جاسوسی کا معاملہ اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میڈیا رپورٹس درست ہیں تو یہ الزام انتہائی سنگین ہے۔
سینئر وکیل کپل سبل نے کہا ۔۔ 'میں یہ کہنا بھی نہیں چاہتا کہ دلائل میں کچھ نہیں ہے۔ دائر کی گئی کچھ درخواستیں مؤثر نہیں ہیں اور کچھ کا دعویٰ ہے کہ ان کے فون ہیک ہو چکے ہیں۔ لیکن انہوں نے فوجداری شکایت درج کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس پر سبل نے کہا ، 'ہماری کوئی براہ راست رسائی نہیں ہے۔' انہوں نے کہا کہ یہ ٹیکنالوجی کے ذریعے پرائیویسی پر حملہ ہے۔ اس کے لیے صرف ایک فون کی ضرورت ہوتی ہے اور ہماری انفرادی حرکات کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ قومی انٹرنیٹ سیکورٹی کا بھی سوال ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا ، 'ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے لیکن ایڈیٹرز گلڈ کے علاوہ تمام درخواستیں اخبار پر مبنی ہیں۔ انکوائری کا حکم دینے کے لیے کوئی ٹھوس بنیاد نظر نہیں آتی۔ یہ مسئلہ 2019 کے بعد اچانک دوبارہ گرم ہو گیا ہے۔ اس کی وجوہات جاننے کی ضرورت ہے۔