گزشتہ 15 مہینوں سے جاری کسانوں کا احتجاج حکومت کی ان کے مطالبات پر حامی بھرنے کے ساتھ ہی تقریباً ختم ہونے کے قریب ہے۔ حکومت کو موصول ہونے والی تجویز پر منگل کو سنگھو بارڈر پر کسانوں کی تنظیموں کی میٹنگ میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ کچھ مسائل پر بات کرنے کے لیے کسان تنظیمیں بدھ کو دوپہر 2 بجے دوبارہ چرچہ کریں گی۔متحدہ کسان مورچہ کے لیڈروں کے مطابق مرکزی حکومت نے کسانوں کو ایم ایس پی پر تحریری یقین دہانی اور پولیس کیس واپس لینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ ایسے میں حکومت کی اس تجویز کو قبول کرنے کا مطلب ہے کہ کسانوں کی تحریک اب ختم ہونے والی ہے۔
کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت ایم ایس پی کے معاملے پر فیصلہ کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے گی۔ کمیٹی میں افسران، زرعی ماہرین اور کسان تنظیموں کے نمائندے شامل ہوں گے۔ اس پر کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت کی حمایت کرنے والی کسان تنظیموں کو اجلاس میں شامل نہیں کیا جانا چاہئے۔متحدہ کسان مورچہ کی جانب سے ایک پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا گیا۔ بتایا گیا کہ مرکزی حکومت نے کسانوں کے خلاف ہر قسم کے الزامات کو ختم کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ اس میں پرالی جلانے اور سیکورٹی فورسز کے ساتھ پرتشدد جھڑپوں سے متعلق معاملات شامل ہیں۔حکومت کی طرف سے دی گئی یقین دہانی سے کسان خوش ہیں، لیکن بات صرف اس بات پر اٹکی ہوئی ہے کہ مرکزی حکومت کسانوں کے خلاف درج مقدمات کو احتجاج ختم کرنے کے بعد ہی ہٹانا چاہتی ہے۔ وہیں کسان چاہتے ہیں کہ پہلے مقدمات نمٹانے کا عمل شروع کیا جائے۔
کسان رہنما نے کہا کہ حکومت کا تجویزمیں کہنا ہے کہ جب ہم تحریک ختم کریں گے، تبھی وہ (کسانوں کے خلاف) مقدمات واپس لیں گے۔ ہم اس کے بارے میں خوف زدہ ہیں۔ حکومت فوری طور پر (مقدمات واپس لینے) کا عمل شروع کرے۔ حتمی فیصلہ کل دوپہر 2 بجے ہونے والے اجلاس میں کیا جائے گا۔
کسان رہنماؤں نے کہا کہ اس معاملے پر بھی مرکزی حکومت نے کسانوں کو یقین دلایا ہے کہ پنجاب کی طرح ہریانہ اور اتر پردیش کی حکومتیں بھی معاوضہ دیں گی۔بھارتیہ کسان یونین کے رہنما گرنام سنگھ چارونی نے کہا کہ 700 سے زیادہ مرنے والے کسانوں کے لواحقین کو معاوضہ دینے کے لیے، ہم چاہتے ہیں کہ مرکز پنجاب ماڈل پر عمل کرے۔ 5 لاکھ روپے معاوضہ اور پنجاب حکومت کی طرف سے اعلان کردہ نوکری پر بھی حکومت عمل کرے۔دریں اثنا کسان رہنما راکیش ٹکیت کا کہنا ہے کہ حکومت نے تجویز دی کہ وہ ہمارے مطالبات مانے گی اور ہمیں احتجاج ختم کرنا چاہیے لیکن تجویز واضح نہیں ہے۔ ہمارے اپنے تحفظات ہیں جن پر کل دوپہر 2 بجے بات کی جائے گی۔ ہماری تحریک کہیں نہیں جا رہی، یہیں رہے گی۔