نئی دہلی۔ 26 نومبر وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج یہاں سپریم کورٹ کے زیر اہتمام یوم آئین کی تقریبات سے خطاب کیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا جناب جسٹس این وی رمنا، مرکزی وزیر جناب کرن ریجوجو، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے سینئر جج صاحبان، اٹارنی جنرل آف انڈیا جناب کے کے وینوگوپال اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر جناب وکاس سنگھ اس موقع پر موجود تھے۔
اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے، وزیراعظم نے صبح میں کہا کہ وہ مقننہ اور عاملہ کے ساتھیوں کے درمیان تھے۔ اور اب وہ عدلیہ کے تمام قابل ارکان کے ساتھ ہیں۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا "ہم سب کے مختلف کردار، مختلف ذمہ داریاں، کام کرنے کے مختلف طریقے ہو سکتے ہیں، لیکن ہمارا یقین ، تحریک اور توانائی کا منبع ایک ہی ہے – ہمارا آئین۔"
وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے آئین سازوں نے ہمیں ہندوستان کی ہزاروں سال کی عظیم روایت کو برقرار رکھنے اورجنہوں نے آزادی کے لیے زندگی گزاری اور قربانی دی ، ان کے خوابوں کی کی روشنی میں ہمیں آئین سے نوازا۔
وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ آزادی کے اتنے سالوں کے بعد بھی شہریوں کے ایک بڑے حصے کو پینے کے پانی، بیت الخلا، بجلی وغیرہ جیسی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا گیا ۔ان کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے کام کرنا آئین کے تئیں بہترین خراج عقیدت ہے۔ انہوں نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ ملک میں اس محرومی کو اختتام تک پہنچانے کی ایک بڑی مہم جاری ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پچھلے کئی مہینوں سے کورونا کے دور میں 80 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو مفت خوراک فراہم کی گئی۔ حکومت پی ایم غریب کلیان اَن یوجنا پر 2 لاکھ 60 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کرکے غریبوں کو مفت اناج دے رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس اسکیم کو گزشتہ روز آئندہ سال مارچ تک بڑھا دیا گیاہے۔ انہوں نے کہا کہ جب غریبوں، خواتین، خواجہ سراؤں، سڑکوں پر دکانداری کرنے والوں، معذوروں اور دیگر طبقات کی ضروریات اور خدشات کو دور کیا جاتا ہے تو وہ قوم کی تعمیر کے عمل میں شامل ہو جاتے ہیں اور آئین پر ان کا اعتماد مضبوط ہوتا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ سب کا ساتھ-سب کا وکاس، سب کا وشواس-سب کا پریاس، آئین کی روح کا سب سے طاقتور مظہر ہے۔ حکومت آئین کے تئیں وقف ہے، ترقی میں کوئی امتیاز نہیں کرتی اور ہم نے یہ کیا ہے۔ آج غریب ترین غریبوں کو معیاری انفراسٹرکچر تک وہی رسائی مل رہی ہے جو کبھی وسائل رکھنے والے لوگوں تک محدود تھی۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک کی اتنی ہی توجہ لداخ، انڈمان اور شمال مشرق کی ترقی پر ہے جتنی دہلی اور ممبئی جیسے میٹرو شہروں پر ہے۔
حال ہی میں جاری ہونے والے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ صنفی مساوات کے حوالے سے اب بیٹوں کے مقابلے بیٹیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ حاملہ خواتین کے لیے ہسپتال میں زچگی کے مزید مواقع دستیاب ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے زچگی کی شرح اموات، نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں کمی آرہی ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ آج پوری دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جو بظاہر کسی دوسرے ملک کی نوآبادیات کے طور پر موجود ہو۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ نوآبادیاتی ذہنیت بھی ختم ہو چکی ہے۔ "ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ ذہنیت بہت سی بگاڑ کو جنم دے رہی ہے۔ اس کی سب سے واضح مثال ترقی پذیر ممالک کی ترقی کے سفر میں ہمیں درپیش رکاوٹوں میں نظر آتی ہے۔ انہوں نے کہا ترقی پذیر ممالک کے لیے یکساں وسائل ، یکساں راستے کو بند کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، جن طریقوں سے ترقی یافتہ دنیا آج اس مقام پر پہنچی ہے"۔ وزیر اعظم نے واضح کیا کہ ہندوستان واحد ملک ہے جو پیرس معاہدے کے اہداف کو وقت سے پہلے حاصل کرنے کے عمل میں ہے۔ اور پھر بھی ماحولیات کے نام پر ہندوستان پر مختلف قسم کے دباؤ ڈالے جاتے ہیں۔ یہ سب نوآبادیاتی ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ "بدقسمتی سے ایسی ذہنیت کی وجہ سے ہمارے ہی ملک کی ترقی میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ کبھی آزادی اظہار کے نام پر اور کبھی کسی اور چیز کی مدد سے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ نوآبادیاتی ذہنیت تحریک آزادی میں پیدا ہونے والے عزم کو مزید مضبوط کرنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔انہوں نے کہا "ہمیں اسے دور کرنا ہوگا۔ اور اس کے لیے، ہماری سب سے بڑی طاقت، ہماری سب سے بڑی تحریک، ہمارا آئین ہے"۔
وزیراعظم نے کہا کہ حکومت اور عدلیہ دونوں آئین کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ لہذا، دونوں جڑواں ہیں۔ یہ دونوں صرف آئین کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں۔ لہذا، وسیع تر نقطہ نظر سے، دونوں مختلف ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ انہوں نے اقتدار کی علیحدگی کے تصور کی اہمیت کی نشاندہی کرتے ہوئے زور دے کر کہا کہ امرت کال میں آئین کی روح کے اندر اجتماعی عزم ظاہر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ عام آدمی اس سے زیادہ کا مستحق ہے جو اس کے پاس ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ''طاقت کی علیحدگی کی مضبوط بنیاد پر ہمیں اجتماعی ذمہ داری کا راستہ ہموار کرنا ہے، لائحہ عمل تیار کرنا ہے، اہداف کا تعین کرنا ہے اور ملک کو اس کی منزل تک لے جانا ہے۔''