Urdu News

جلیانوالہ باغ کے شہدا کی قربانی ہر ہندوستانی کو طاقت بخشتی ہے: وزیر اعظم مودی

جلیانوالہ باغ کے شہدا کی قربانی ہر ہندوستانی کو طاقت بخشتی ہے: وزیر اعظم مودی

نئی دہلی ، 13 اپریل (انڈیا نیرٹیو)

وزیر اعظم نریندر مودی نے منگل کے روز جلیانوالہ باغ قتل عام کے شہدا کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ہمت ، بہادری اور قربانی نے ہر ہندوستانی کو تقویت بخشی۔

وزیر اعظم مودی نے ٹویٹ کیا اور کہا ، "جلیانوالا باغ قتل عام میں جاں بحق ہونے والے لوگوں کو خراج تحسین پیش کریں۔" ان کی جرات ، بہادری اور قربانی ہر ہندوستانی کو تقویت بخشتی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ آج جلیانوالہ باغ قتل عام کی 102 ویں برسی ہے۔ اس دن ، 13 اپریل 1919 کو ، بریگیڈیئر جنرل ڈائر کی سربراہی میں ، برطانوی مسلح پولیس اہلکاروں نے سیکڑوں نہتے ، بے گناہ ہندوستانیوں ، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے ، پر اندھا دھند فائرنگ کی اور انہیں گولی مار کر ہلاک کردیا۔ ان کا ایک ہی قصور تھا کہ وہ برطانوی حکومت کے جابرانہ روولٹ ایکٹ کے خلاف پرامن انداز میں ایک اجتماع کا انعقاد کر رہے تھے۔

وزیراعظم جناب نریندر مودی نے جلیاں والا باغ قتل عام کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔جناب نریندر مودی نے ایک ٹوئٹ میں کہاکہ ’’جلیانوالہ باغ قتل عام میں شہیدہونے والوں کو خراج عقیدت۔ ان کی جرآت، جانبازی اور قربانی سے ہر ہندوستانی کو طاقت حاصل ہوتی ہے‘‘۔

واضح ہوکہ جلیانوالہ باغ کا قتلِ عام، جسے امرتسر قتلِ عام بھی کہا جاتا ہے، 13 اپریل، 1919 کو واقع ہوا جب پرامن احتجاجی مظاہرے پر برطانوی ہندوستانی فوج نے جنرل ڈائر کے احکامات پر گولیاں برسا دیں۔ اس مظاہرے میں بیساکھی کے شرکا بھی شامل تھے جو پنجاب کے ضلع امرتسر میں جلیانوالہ باغ میں جمع ہوئے تھے۔ یہ افراد بیساکھی کے میلے میں شریک ہوئے تھے جو پنجابیوں کا ثقافتی اور مذہبی اہمیت کا تہوار ہے۔ بیساکھی کے شرکا بیرون شہر سے آئے تھے اور انہیں علم نہیں تھا کہ شہر میں مارشل لا نافذ ہے۔

پانچ بج کر پندرہ منٹ پر جنرل ڈائر نے پچاس فوجیوں اور دو آرمرڈ گاڑیوں کے ساتھ وہاں پہنچ کر کسی اشتعال کے بغیر مجمع پر فائرنگ کا حکم دیا۔ اس حکم پر عمل ہوا اور چند منٹوں میں سینکڑوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

باغ کا رقبہ 6 سے 7 ایکڑ جتنا تھا اور اس کے پانچ دروازے تھے۔ ڈائر کے حکم پر فوجیوں نے مجمعے پر دس منٹ گولیاں برسائیں اور زیادہ تر گولیوں کا رخ انہی دروازوں سے نکلنے والے لوگوں کی جانب تھا۔ برطانوی حکومت نے ہلاک شدگان کی تعداد 379 جب کہ زخمیوں کی تعداد 1200 بتائی۔ دیگر ذرائع نے ہلاک شدگان کی کل تعداد 1000 سے زیادہ بتائی۔ اس ظلم نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا اور برطانوی اقتدار سے ان کا بھروسا اٹھ گیا۔ ناقص ابتدائی تفتیش کے بعد ہاؤس آف لارڈز میں ڈائر کی توصیف نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور تحریکِ عدم تعاون شرو ع ہو گئی۔

اتوار 13اپریل، 1919 کو ڈائر کو بغاوت کا پتہ چلا تو اس نے ہر قسم کے اجتماعات پر پابندی لگا دی مگر لوگوں نے اس پر زیادہ کان نہ دھرے۔ چوں کہ بیساکھی کا دن سکھ مذہب کے لیے مذہبی اہمیت رکھتا ہے، اس لیے آس پاس کے دیہاتوں کے لوگ باغ میں جمع ہو گئے تھے۔ جب ڈائر کو باغ میں ہونے والے اجتماع کا پتہ چلا تو اس نے فوراً پچاس گورکھے فوجی اپنے ساتھ لیے اور باغ کے کنارے ایک اونچی جگہ انہیں تعینات کر کے مجمعے پر گولی چلانے کا حکم دیا۔ دس منٹ تک گولیاں چلتی رہیں حتیٰ کہ گولیاں تقریباً ختم ہو گئیں۔ ڈائر نے بیان دیا کہ کل 1650 گولیاں چلائی گئیں۔ شاید یہ عدد فوجیوں کی طرف سے جمع کیے گئے گولیوں کے خولوں کی گنتی سے آیا ہوگا۔ برطانوی ہندوستانی اہلکاروں کے مطابق 379 کو مردہ اور تقریباً 1100 کو زخمی قرار دیا گیا۔ انڈین نیشنل کانگریس کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد اندازہً 1000 اور زخمیوں کی تعداد 1500 کے لگ بھگ تھی۔

شروع میں برطانیہ کے قدامت پسندوں نے ڈائر کی بہت تعریف کی مگر ایوانِ نمائندگان نے جولائی 1920تک اس کو منظرِ عام سے ہٹا کر ریٹائر کر دیا۔ برطانیہ میں برطانوی سلطنت کے حامیوں جیسا کہ ہاؤس آف لارڈز میں ڈائر کو ہیرو سمجھا جاتا تھا مگر جمہوری اداروں جیسا کہ ایوانِ نمائندگان میں اسے ناپسند کیا جاتا تھا اور اس کے خلاف دو بار ووٹ دیا۔ اس قتلِ عام کے بعد فوجی کردار کے بارے نئے سرے سے فیصلہ کیا گیا کہ اسے کم از کم طاقت تک محدود کر دینا چاہیے اور فوج نے مجمع کو قابو کرنے کے لیے نئی مشقیں اور نئے طریقوں کو اپنایا۔ بعض مؤرخین کے مطابق اس واقعے نے برطانوی اقتدار کی قسمت پر مہر ثبت کر دی جب کہ دیگر کا خیال ہے کہ پہلی جنگِ عظیم میں ہندوستان کی شمولیت کی وجہ سے خود مختاری نوشتہ دیوار بن چکی تھی۔

Recommended