روڈ ٹرانسپورٹ اور شاہراہوں کے مرکزی وزیر جناب نتن گڈکری نے مہاراشٹر کے اکولا میں 20 امرت سرووروں کو قوم کے نام وقف کیا ۔
مکمل طور پر تیار 20 آبی ذخائر کو آج امرت سروور ابھیان کا حصہ قرار دیا گیا ۔ ان 20 آبی ذخائر میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 1276 ٹی سی ایم ہے۔
اکولا میں ڈاکٹر پنجاب راؤ دیشمکھ کرشی ودیا پیٹھ میں وانی ، رمبھا پور اور بابل گاؤں میں زیر تعمیر امرت سروور پروجیکٹوں کا آج جناب نتن گڈکری نے آج وائس چانسلر جناب ولاس بھالے کی موجودگی میں دورہ کیا ۔
وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے ذریعے اعلان کردہ ’امرت سروور ابھیان ‘ کے تحت ، جس سے پورے ملک میں آبی ذخائر کی تصویر ہی بدل جائے گی ، 15 اگست ، 2023 ء تک ملک میں تقریباً 50000 امرت سرووروں کے احیاء اور فروغ کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ اس ضمن میں ہر ضلع میں کم از کم 75 امرت سرووروں کا احیاء کیا جائے گا ۔
اس موقع اظہارِ خیال کرتے ہوئے ، جناب گڈکری نے کہا کہ مہاراشٹر میں بلدھانہ طرز کے کامیاب استعمال سے 500 سے زیادہ پانی کے ذخائر ، 270 کھیتوں کے تالابوں کا امرت سروور ابھیان کے تحت 2022 ء تک احیاء کیا گیا ہے ۔ اس کے نتیجے میں ریاست میں پانی ذخیرہ کرنے کی 34000 ٹی سی ایم کی اضافی صلاحیت تشکیل دی گئی ہے اور اس پر کوئی خرچ نہیں ہوا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ امرت سروور کی اِس چین میں اکولا کے ڈاکٹر پنجاب راؤ دیشمکھ زرعی یونیورسٹی ( پی کے وی ) اور اکولا ضلع میں ناگپور کے بور گاؤں میں مہاراشٹر اینمل ہسبنڈری اینڈ فشریز یونیورسٹی ( ایم اے ایف ایس یو ) میں 2468 ٹی سی ایم کی صلاحیت والے 34 آبی ذخائر تعمیر کئے جا رہے ہیں ۔
وزیر موصوف نے کہا کہ بلدھانہ کے آبی تحفظ کے طرز پر کامیاب تجرباتی پروجیکٹ کی بنیاد پر ، اِس ماڈل میں آبی ذخائر کو گہرا کرنے اور اس کے احیاء کا کام کسی خرچ کے بغیر ہائے وی سے متعلق امراوتی-اکولا نیشنل ہائی وے 53 کے ذریعے کیا جا رہا ہے ۔
جناب گڈکری نے کہا کہ ان آبی ذخائر سے نکالی گئی مٹی، گاد اور دیگر چیزوں کو قومی شاہراہ کے کام کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس ماڈل اسکیم کے ذریعے پی کے وی اور ایم اے ایف ایس یو کمپلیکس میں 34 تالاب/جھیلیں بنانے کا منصوبہ ہے ، جس میں 2468 ٹی ایم سی پانی ذخیرہ کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان میں سے 20 جھیلوں کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے اور 9 جھیلوں کی تعمیر کا کام جاری ہے ، جب کہ 5 جھیلوں پر جلد کام شروع کر دیا جائے گا۔
وزیر موصوف نے کہا کہ ابتدا ء میں یہاں آبپاشی کی گنجائش 150 ہیکٹیئر تھی لیکن ان آبی ذخائر کی تعمیر کے بعد یہ بڑھ کر 663 ہیکٹیئر تک پہنچ گئی ہے۔ مجوزہ 34 آبی ذخائر کی تعمیر کے بعد ، آبپاشی کی یہ صلاحیت بڑھ کر 2468 ہیکٹیئر تک پہنچ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے خریف کی صرف ایک فصل کی جاتی تھی لیکن اب پروجیکٹ کے بعد ایک سے زیادہ فصلیں بوئی جا سکتی ہیں ۔
جناب گڈکری نے کہا کہ اینمل ہسبنڈری ڈیولپمنٹ ایریا میں 16 ایکڑ میں ایک تالاب تعمیر کیا گیا ہے ، جس میں 300 ٹی سی ایم پانی کے ذخیرے کی گنجائش ہے ۔ اس سے پہلے یونیورسٹی کے کیمپس میں پانی کی قلت کا بڑا مسئلہ تھا۔ پرانی اسکیموں کی ناکامی کی وجہ سے صرف چند علاقوں میں ہی آبپاشی کی جا سکتی تھی ۔ ان 34 منصوبہ بند جھیلوں کی تکمیل کے بعد یونیورسٹی کا پورا علاقہ آبپاشی کے تحت آ جائے گا ۔
وزیر موصوف نے کہا کہ اس ماڈل کے ساتھ تیار کردہ تالابوں کو ماہی پروری کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور انہیں فروخت کرکے ریونیو حاصل کرنا ممکن ہو گا ۔ اس سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ گزشتہ سال پنجاب راؤ دیش مکھ یونیورسٹی نے ایسی دو جھیلوں کی نیلامی کی تھی اور 8 لاکھ روپئے کمائے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ماڈل پانی کے ری چارج کے ذریعے ایک لاکھ فی آبادی والے 18 گاؤوں کو فائدہ پہنچائے گا ۔
جناب گڈکری نے کہا کہ امرت سروور کے اس ماڈل کو خشک سالی سے متاثرہ تمام علاقوں اور ملک کی زرعی یونیورسٹیوں میں استعمال کیا جانا چاہیئے ۔ پورے ملک میں کل 71 زرعی یونیورسٹیوں کو اس سے فائدہ ہو سکتا ہے ۔ انہوں نے ریاست اور ملک کے تمام وزیروں پر زور دیا کہ وہ پنجاب راؤ دیش مکھ یونیورسٹی کے ، ان امرت سروور پروجیکٹوں کا دورہ کریں اور ایسے پروجیکٹ اپنے علاقوں میں تعمیر کرنے کی کوشش کریں ۔