چندی گڑھ ۔ 22؍ مئی
جہاں ہندوستان میں خواتین نے اپنی شرکت کے بعد بہت ترقی کی ہے، وہیں پاکستان میں ان کے ہم منصبوں کو مسلسل ظلم و ستم، پسماندگی اور تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خالصہ ووکس میں مصنف ویشالی شرما لکھتی ہیں کہ ہندوستانی آئین میں خواتین کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے، جس میں تعلیم، صحت اور کام شامل ہیں۔
سیاست، کاروبار اور عوامی زندگی میں خواتین کی موجودگی کو بہتر بنانے کے لیے اہم کوششیں کی گئی ہیں، جس کے نتیجے میں ایک زیادہ جامع اور ترقی پسند ماحول پیدا ہوا ہے۔ نتیجے کے طور پر، ہندوستان میں بہت سی سکھ خواتین نے سماجی، سیاسی اور معاشی رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے مختلف شعبوں میں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
تاہم پاکستان میں سکھ خواتین کی حالت بدستور خراب ہوتی جا رہی ہے۔ خاص طور پر ملک میں انتہا پسندی کے فروغ کے بعد سے سکھ خواتین ایک طویل عرصے سے ظلم و ستم کا شکار اور پسماندہ ہیں۔ مزید برآں، پاکستان میں خواتین کو ضروری انسانی حقوق، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال تک رسائی سے محروم رکھا جاتا ہے ۔
خواتین کو ملک میں نظامی امتیازی سلوک، بدسلوکی اور جبر کا سامنا ہے، جس کا صنفی مساوات کا ریکارڈ خراب ہے۔ ، ویشالی شرما لکھتی ہیں کہ پاکستانی معاشرے کی پدرانہ فطرت خواتین کی خودمختاری میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور فیصلہ سازی تک ان کی رسائی کو محدود کرتی ہے۔
مزید برآں، جبری شادیاں اور غیرت کے نام پر قتل اب بھی بڑے پیمانے پر ہیں، خاندان خواتین پر کمیونٹی میں شادی کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔ خالصہ ووکس کے مطابق 2019 میں پاکستان میں ایک نوجوان سکھ لڑکی جگجیت کور کو اغوا کر کے زبردستی اسلام قبول کیا گیا۔