نئی دہلی۔ 07 جون میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار! کو رونا کی دوسری لہر سے ہم ہندوستانیوں کی لڑائی جاری ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک کی طرح، ہندوستان بھی اس لڑائی کے دوران بہت درد سے گذرا ہے۔ ہم میں سے کئی لوگوں نے اپنے عزیزوں کو، اپنے واقف کاروں کو کھویا ہے۔ ایسے سبھی کنبوں کے ساتھ میری پوری ہمدردی ہے۔ ملک
ساتھیوں،
گذشتہ سو سالوں میں آئی یہ سب سے بڑی وبا ہے، مصیبت ہے۔ اس طرح کی وبا جدید دنیا نے نہ دیکھی تھی، نہ تجربہ کیا تھا۔ اتنی بڑی عالمی وبا سے ہمارا ملک کئی محاذوں پر ایک ساتھ لڑا ہے۔ کووڈ اسپتال بنانے سے لیکر آئی سی یو بیڈکی تعداد بڑھانی ہو، ہندوستان میں وینٹلیٹر بنانے سے لیکر ٹیسٹنگ لیب کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک تیار کرنا ہو، کووڈ سے لڑنے کے لیے گذشتہ سوا سال میں ہی ملک میں صحت کا ایک نیا بنیادی ڈھانچہ تیار کیا گیا ہے۔ دوسری لہر کے دوران اپریل اور مئی کے مہینے میں ہندوستان میں میڈیکل آکسیجن کی مانگ میں ناقابل تصور اضافہ ہوا تھا۔ ہندوستان کی تاریخ میں کبھی بھی اتنی مقدار میں میڈیکل آکسیجن کی ضرورت کبھی بھی محسوس نہیں کی گئی۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے جنگی پیمانے پر کام کیا گیا۔ حکومت کی سبھی مشینری لگی۔ آکسیجن ریل چلائی گئی، فضائیہ کے طیاروں کو لگایا گیا، بحریہ کو لگایا گیا۔ بہت ہی کم وقت میں مائع میڈیکل آکسیجن کی پیداوار کو 10 گنا سے زیادہ بڑھایا گیا۔ دنیا کے ہر کونے سے لایا گیا اور جہاں کہیں سے بھی، جو کچھ بھی دستیاب ہو سکتا تھا اسے حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ اسی طرح ضروری دواؤں کی پیداوار میں کئی گنا اضافہ کیا گیا، غیر ملکوں میں جہاں بھی دوائیاں دستیاب ہوں ، وہاں سے انہیں لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔
ساتھیوں،
کو رونا جیسے غیر مرئی اور روپ بدلنے والے دشمن کے خلاف لڑائی میں سب سے مؤثر ہتھیار، کووڈ پروٹوکول ہے، ماسک، دو گز کی دوری اور باقی سارے احتیاطی تدابیر پر عمل در ہی ہے۔ اس لڑائی میں ویکسین ہمارے لیے حفاظتی ڈھال کی طرح ہے۔ آج پوری دنیا میں ویکسین کے لیے جو مانگ ہے، اسکے مقابلے میں تیار کرنے والے ملک اور ویکسین بنانے والی کمپنیاں بہت کم ہیں، معدودے چند ہیں ۔ تصور کیجئے کہ ابھی ہمارے پاس ہندوستان میں تیار ویکسین نہیں ہوتی تو آج ہندوستان جیسے عظیم ملک میں کیا ہوتا؟ آپ پچھلے 50-60سال کی تاریخ دیکھیں گے تو پتہ چلے گا کہ ہندوستان کو بیرون ممالک سے ویکسین حاصل کرنے میں دہائیاں لگ جاتی تھی۔ بیرون ممالک ویکسین کا کام پورا ہو جاتا تھا تب بھی ہمارے ملک میں ٹیکہ کاری کا کام شروع بھی نہیں ہو پاتا تھا۔ پولیو کی ویکسین ہو، اسمال پوکس، جسے گاؤں میں ہم چیچک کہتے ہیں۔ چیچک کی ویکسین ہو، ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین ہو، انکے لیے ہم وطنوں نے دہائیوں تک انتظار کیا تھا۔ جب 2014 میں ہم وطنوں نے ہمیں خدمت کا موقع دیا تو ہندوستان میں ٹیکہ کاری کا کوریج، 2014 میں ہندوستان میں ٹیکہ کاری کا کوریج صرف 60 فیصد کے ہی آس پاس تھا۔ اور ہماری نظر میں یہ بہت تشویش کی بات تھی۔ جس رفتار سے ہندوستان کا ٹیکہ کاری پروگرام چل رہا تھا، اس رفتار سے، ملک کو صد فیصد ٹیکہ کاری کوریج کا ہدف حاصل کرنے میں قریب قریب 40 سال لگ جاتے۔ ہم نے اس مسئلہ کے حل کے لیے 'مشن اندردھنش' کو لانچ کیا۔ ہم نے طے کیا کہ مشن اندردھنش کے ذریعہ جنگی پیمانے پر ٹیکہ کاری کی جائے گی اور ملک میں جسکو بھی ویکسین کی ضرورت ہے اسے ویکسین دینے کی کوشش ہوگی۔ ہم نے مشن موڈ میں کام کیا، اور صرف 5-6 سال میں ہی ٹیکہ کاری کوریج 60 فیصد سے بڑھکر 90 فیصد سے بھی زیادہ ہو گئی۔ 60 سے 90،یعنی ہم نےٹیکہ کاری کی رفتار بھی بڑھائی اور دائرہ بھی بڑھایا۔