30 اپریل 2022:
عزت مآب چیف جسٹس آف انڈیا جناب این وی رامنا جی، جسٹس جناب یو یو للت جی، ملک کے وزیر قانون جناب کرن رجیجو جی، وزیر مملکت پروفیسر ایس پی سنگھ بگھیل جی، ریاستوں کے تمام معزز وزرائے اعلیٰ، مرکز کے زیر انتظام زیر انتظام ممالک کے لیفٹیننٹ گورنرز، سپریم کورٹ آف انڈیا کے معزز جج، ہائی کورٹس کے چیف جسٹس، معزز مہمان، دیگر تمام معززین موجود ہیں۔ خواتین و حضرات۔
ریاست کے وزرائے اعلیٰ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹسوں کی یہ مشترکہ کانفرنس ہماری آئینی خوبصورتی کی منہ بولتی تصویر ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اس موقع پر مجھے بھی آپ سب کے درمیان کچھ لمحات گزارنے کا موقع ملا ہے۔ ہمارے ملک میں جہاں عدلیہ کا کردار آئین کے سرپرست کا ہے وہیں مقننہ شہریوں کی امنگوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آئین کے ان دونوں طبقات کا یہ امتزاج، یہ توازن ملک میں ایک موثر اور بر وقت عدالتی نظام کے لیے ایک لائحہ عمل تیار کرے گا۔ میں اس تقریب کے لیے آپ سب کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو،
وزرائے اعلیٰ اور چیف جسٹسز کی یہ مشترکہ کانفرنسیں ماضی میں بھی منعقد ہوتی رہی ہیں۔ اور ان تقریبات نے ہمیشہ ملک کے لیے کچھ نئے خیالات پیش کیے ہیں۔ لیکن اس بار یہ تقریب اپنے آپ میں اور بھی خاص ہے۔ آج یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ملک اپنی آزادی کے امرت مہوتسو کا جشن منا رہا ہے۔ آزادی کے ان 75 سالوں نے عدلیہ اور ایگزیکٹو دونوں کے کرداروں اور ذمہ داریوں کو برابر واضح کیا ہے۔ جہاں بھی ضروری ہوا، یہ رشتہ ملک کو سمت دینے کے لیے مسلسل تیار ہوا ہے۔ آج آزادی کے امرت مہوتسو میں جب ملک نئے امرت عزائم طے کر رہا ہے، نئے خواب دیکھ رہا ہے، ہمیں مستقبل کی طرف بھی دیکھنا ہوگا۔ 2047 میں جب ملک اپنی آزادی کے 100 سال مکمل کر لے گا تو ہم ملک میں کس طرح کا نظام انصاف دیکھنا چاہیں گے؟ ہم اپنے عدالتی نظام کو 2047 کے بھارت کی امنگوں کو پورا کرنے، ان پر پورا اترنے کے قابل کیسے بنا سکتے ہیں، آج ہماری ترجیح یہ ہونی چاہیے۔ امرت کال میں ہمارا وژن ایک انصاف کے نظام کا ہونا چاہیے جس میں انصاف قابل رسائی ہو، انصاف تیز ہو اور انصاف سب کے لیے ہو۔
ساتھیو،
حکومت ملک میں انصاف کی تاخیر کو کم کرنے کے لیے اپنی سطح سے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ ہم عدالتی طاقت بڑھانے کی کوششیں کر رہے ہیں، عدالتی بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ کیس مینجمنٹ کے لیے آئی سی ٹی کا استعمال بھی متعارف کرایا گیا ہے۔ ماتحت عدالتوں اور ضلعی عدالتوں سے لے کر ہائی کورٹس تک خالی آسامیوں کو پر کرنے کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالتی بنیادی ڈھانچے کو مستحکم کرنے کے لیے بھی ملک میں وسیع پیمانے پر کام کیا جارہا ہے۔ اس میں ریاستوں کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔
ساتھیو،
آج ٹیکنالوجی دنیا بھر کے شہریوں کے حقوق، ان کو بااختیار بنانے کا ایک اہم ذریعہ بن چکی ہے۔ ہمارے عدالتی نظام میں بھی آپ سب ٹیکنالوجی کے امکانات سے واقف ہیں۔ ہمارے معزز جج وقتاً فوقتاً اس بحث کو آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔ حکومت ہند عدالتی نظام میں ٹیکنالوجی کے امکانات کو ڈیجیٹل انڈیا مشن کا لازمی حصہ بھی سمجھتی ہے۔ مثال کے طور پر ای کورٹس پروجیکٹ کو آج مشن موڈ میں نافذ کیا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کی ای کمیٹی کی رہنمائی میں عدالتی نظام میں ٹیکنالوجی انضمام اور ڈیجیٹلائزیشن کا کام تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ میں یہاں موجود تمام وزرائے اعلیٰ اور ہائی کورٹس کے تمام چیف جسٹسوں سے بھی درخواست کروں گا کہ وہ اس مہم کو خصوصی اہمیت دیں، اسے آگے بڑھائیں۔ ڈیجیٹل انڈیا کے ساتھ عدلیہ کا یہ انضمام بھی آج ملک کے عام آدمی کی توقع بن گیا ہے۔ آپ دیکھیں، آج چند سال پہلے ہمارے ملک کے لیے ڈیجیٹل لین دین کو ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ لوگ سوچتے تھے، لوگ شک کرتے تھے، اوہ ہمارے ملک میں ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ اور یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا دائرہ کار صرف شہروں تک محدود ہوسکتا ہے، یہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ لیکن آج چھوٹے شہروں اور یہاں تک کہ دیہاتوں میں ڈیجیٹل لین دین عام ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ سال دنیا بھر میں ہونے والے ڈیجیٹل لین دین کی کل تعداد میں سے 40 فیصد ڈیجیٹل لین دین بھارت میں ہوا ہے۔ حکومت سے متعلق خدمات، جن کے لیے شہریوں کو مہینوں کے دفاتر گزارنے پڑے تھے، اب موبائل پر دستیاب ہو رہی ہیں۔ ایسی صورت حال میں یہ فطری بات ہے کہ جس شہری کو آن لائن خدمات اور سہولیات فراہم کی جارہی ہوں، اسے انصاف کے حق کے حوالے سے بھی وہی توقعات ہوں گی۔
ساتھیو،
آج جب ہم ٹیکنالوجی اور مستقبل رخی اپروچ کی بات کر رہے ہیں تو اس کا ایک اہم پہلو ٹیک فرینڈلی ہیومن ریسورس بھی ہے۔ ٹیکنالوجی آج نوجوانوں کی زندگی کا ایک فطری حصہ ہے۔ اس طرح ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ نوجوانوں کی یہ مہارت ان کی پیشہ ورانہ طاقت بن جائے۔ آج کل کئی ممالک کی قانون یونیورسٹیوں میں بلاک چین، الیکٹرانک ڈسکوری، سائبر سیکورٹی، روبوٹکس، مصنوعی ذہانت اور بائیو ایتھکس جیسے مضامین پڑھائے جا رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی قانونی تعلیم ان بین الاقوامی معیارات کے مطابق ہونی چاہیے، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے ہمیں مل کر کوشش کرنی ہوگی۔
ساتھیو،
ہمارے شاستروں میں کہا گیا ہے [جس کا مفہوم ہے] کہ کسی بھی ملک میں سوراج کی بنیاد انصاف ہے۔ لہذا انصاف کو عوام سے، عوام کی زبان میں جوڑنا چاہیے۔ جب تک انصاف کی اساس عام انسان کے لیے نہیں سمجھی جاتی، اس کے لیے انصاف اور ریاستی حکم میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ میں ان دنوں حکومت میں ایک موضوع پر اپنا تھوڑا سا دماغ کھپا رہا ہوں۔ دنیا میں بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں قوانین بناتے ہیں، تو ایک تو وہاں قانونی اصطلاحات میں قانون ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ایک اور قانون بھی ہوتا ہے جو عوامی زبان میں ہوتا ہے۔ عام انسان کی زبان میں ہوتا ہے۔ اور دونوں مجاز ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے عام آدمی کو قانونی چیزوں کو سمجھنے میں انصاف کے دروازے کھٹکھٹانے کی ضروت نہیں پڑتی ہے۔ ہم اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ہمارے ملک میں بھی قانون کی مکمل قانونی اصطلاحات تو ہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہی بات عام آدمی بھی سمجھ سکے۔ اس کی زبان میں اور اسے بھی اسمبلی یا پارلیمنٹ میں ایک ساتھ منظور کیا جانا چاہیے تاکہ مستقبل میں عام آدمی اس کی بنیاد پر بات کر سکے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں یہ روایت ہے۔ میں نے ابھی ایک ٹیم تشکیل دی ہے، وہ اس کا مطالعہ کر رہی ہے۔
ساتھیو،
آج بھی ہمارے ملک میں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کی تمام کارروائیاں انگریزی میں ہیں اور مجھے اچھا لگتا ہے کہ سی جی آئی نے خود اس موضوع کو چھوا ہے، لہذا کل اخبارات کو مثبت خبروں کا موقع ملے گا، اگر اٹھالیں تو۔ لیکن اس کے لیے بہت انتظار کرنا پڑے گا۔
ساتھیو،
ایک بڑی آبادی کو عدالتی عمل سے لے کر فیصلوں تک سمجھنا مشکل لگتا ہے۔ ہمیں اس نظام کو سادہ اور عام لوگوں کے لیے قابل قبول بنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں عدالتوں میں مقامی زبانوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سے ملک کے عام شہریوں کا نظام انصاف پر اعتماد بڑھے گا، وہ اس سے جڑے ہوئے محسوس کریں گے۔ اب اس وقت ہم یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ تکنیکی تعلیم اور طبی تعلیم مادری زبان میں کیوں نہیں ہونی چاہیے۔ ہمارے بچے جو باہر جاتے ہیں، دنیا کی زبان سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، تعلیم حاصل کرکے، پھر میڈیکل کالج کے ذریعے، ہم اپنے ملک میں یہ کام کر سکتے ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ بہت سی ریاستوں نے تکنیکی تعلیم اور طبی تعلیم کو مادری زبان میں دینے کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں۔ تو بعد میں اس سے گاؤں کا غریب بچہ بھی جو زبان کی رکاوٹوں کو محسوس کرتا ہے، اس کے لیے تمام راستے کھل جائیں گے اور یہ بھی ایک بہت بڑا انصاف ہے۔ یہ ایک سماجی انصاف بھی ہے۔ سماجی انصاف کے لیے عدلیہ کے پیمانے پر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ زبان بھی سماجی انصاف کی ایک بڑی وجہ بن سکتی ہے۔
ساتھیو،
ایک سنجیدہ موضوع عام آدمی کے لیے قانون کی الجھنیں بھی ہیں۔ 2015 میں ہم نے تقریبا 1800 قوانین کی نشاندہی کی تھی جو غیر متعلق ہو چکے تھے۔ ان میں سے جو مرکز کے قوانین تھے، ہم نے اس طرح کے 1450 قوانین کو ختم کر دیا۔ لیکن ریاستوں نے صرف 75 قوانین کو ختم کیا ہے۔ آج یہاں تمام وزرائے اعلیٰ تشریف رکھتے ہیں۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ کی ریاست کے شہریوں کے حقوق، ان کی زندگی میں آسانی کے لیے آپ کے پاس بھی قوانین کا اتنا بڑا جال بنا ہوا ہے۔ لوگ آوٹ ڈیٹیڈ قوانین میں پھنسے ہوئے ہیں۔ آپ ان قوانین کو منسوخ کرنے کی سمت میں قدم اٹھائیں، لوگ بہت دعائیں دیں گے۔
ساتھیو،
عدالتی اصلاحات صرف پالیسی کی سرگرمی یا پالیسی معاملہ نہیں ہے۔ ملک میں زیر التوا کروڑوں مقدمات کے لیے پالیسی سے لے کر ٹیکنالوجی تک ملک میں ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے اور ہم نے اس پر بار بار تبادلہ خیال کیا ہے۔ اس کانفرنس میں بھی آپ سبھی ماہرین اس موضوع پر تفصیل سے بات کریں گے، اس کا مجھے پورا یقین ہے۔ میں اس میٹنگ میں کافی دیر سے بیٹھا ہوں۔ شاید ججوں کو جتنا موقع ملا ہوگا اس سے زیادہ موقع مجھے ملا ہے کیوں کہ میں کہ کئی برسوں تک وزیر اعلی کی حیثیت سے ان اجلاسوں میں شرکت کرتا رہا ہوں۔ اب یہاں بیٹھنے کا موقع آگیا ہے تو یہاں آتا رہتا ہوں۔ ایک طرح سے میں اس محفل میں سینئر ہوں۔
ساتھیو،
جب میں اس بارے میں بات کر رہا تھا تو مجھے یقین ہے کہ ان تمام چیزوں میں انسانی حساسیت شامل ہے۔ ہمیں انسانی حساسیت کو بھی مرکز میں رکھنا ہوگا۔ آج ملک میں تقریبا ساڑھے تین لاکھ قیدی ایسے ہیں جن کے مقدمات زیر سماعت ہیں اور وہ جیل میں ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر لوگوں کا تعلق غریب یا عام خاندانوں سے ہے۔ ہر ضلع میں ضلعی جج کی سربراہی میں ان مقدمات کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی ہوتی ہے جہاں ممکن ہو انھیں ضمانت پر رہا کیا جاسکتا ہے۔ میں تمام وزرائے اعلیٰ اور اعلیٰ عدالتوں کے ججوں سے اپیل کروں گا کہ اگر ممکن ہو تو انسانی آئین، حساسیت اور قانون کی بنیاد پر ان معاملات کو ترجیح دیں۔ اسی طرح ثالثی عدالتوں اور خاص طور پر مقامی سطح پر زیر التوا مقدمات کو حل کرنے کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ثالثی کے ذریعے تنازعات کو حل کرنے کی ہزاروں سال پرانی روایت ہے۔ باہمی رضامندی اور باہمی شراکت داری، یہ انصاف کا ایک علیحدہ انسانی تصور ہے۔ اگر ہم اس پر نظر ڈالیں تو ہمارے معاشرے کی یہ نوعیت اب بھی کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ ہم نے اپنی ان روایات کو نہیں کھویا ہے۔ ہمیں اس جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے اور جیسا کہ شیو صاحب نے للت جی کی تعریف کی، میں بھی کرنا چاہوں گا۔ انھوں نے پورے ملک کا سفر کیا، اس کام کے لیے ہر ریاست میں گئے اور سب سے اہم بات یہ کہ کورونا دور میں گئے۔
ساتھیو،
مقدمات کم وقت میں فیصل بھی ہوجاتے ہیں، عدالتوں کا بوجھ بھی کم ہو جاتا ہے اور سماجی تانے بانے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ اس سوچ کے ساتھ ہم نے ثالثی بل کو پارلیمنٹ میں امبریلا لیجسلیشن کے طور پر بھی پیش کیا ہے۔ اپنی ثروت مند قانونی مہارت سے ہم ' ثالثی سے حل' کے طریقے میں ایک عالمی رہنما بن سکتے ہیں۔ ہم پوری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرسکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ قدیم انسانی اقدار اور جدید اپروچ کے ساتھ اس کانفرنس میں ایسے تمام موضوعات پر تمام عالم لوگوں کی طرف سے تفصیلی بحث اور غور و خوض کیا جائے گا اور وہ امرت لایا جائے گا جو شاید آنے والی نسلوں کے لیے کام آئے۔ اس کانفرنس سے جو نئے خیالات سامنے آئیں گے، جو نئے نتائج سامنے آئیں گے وہ نئے بھارت کی امنگوں کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ ہوں گے۔ اس اعتماد کے ساتھ میں ایک بار پھر آپ سب کا آپ کی رہنمائی پر شکر گزار ہوں اور میں حکومت کی جانب سے آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ حکومت کو ملک کے نظام انصاف کے لیے جو کچھ کرنا ہے چاہے وہ ریاستی حکومت ہو، مرکزی حکومت ہو، وہ سب کچھ کرے گی۔ تاکہ ہم سب ملک کے شہریوں کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے اکٹھے ہو سکیں اور 2047 میں جب ملک اپنی آزادی کے 100 سال منائے تو ہم انصاف کے میدان میں بھی زیادہ فخر اور زیادہ احترام اور زیادہ اطمینان کے ساتھ آگے بڑھیں، یہی میری نیک خواہشات ہیں۔ آپ کا بہت شکريہ!