کیا وزیر اعظم نریندر مودی نیا جموں کشمیر کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوشاں ہیں؟ نیا جموں و کشمیر کے لیے کل جماعتی میٹنگ کچھ ہی دیر میں
نئی دہلی میں ہونے والی وزیر اعظم مودی کی کشمیری سیاسی لیڈروں کے ساتھ کل جماعتی میٹنگ سے مختلف طبقوں کو اپنے اپنے مسائل اور دیگر معاملات کے حوالے سے کافی امیدیں ہیں ۔ خواہ کشمیری مائیگرنٹ ہوں ، والمکی سماج کے لوگ ہوں یا مغربی پاکستان کے رفیوجی ہوں ، ان سب کو مرکزی سرکار کی طرف سے جموں و کشمیر کے بارے میں بلائی گئی اس میٹنگ سے خاص توقعات ہیں ۔
میٹنگ کے لیے جموں و کشمیر کی مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں کو پہلے ہی دعوت دی گئی ہے ۔ دعوت نامے موصول ہونے کے بعد جموں و کشمیرکی مختلف سیاسی جماعتوں نے الگ الگ میٹنگیں کرکے اپنا موقف عوام کے سامنے رکھا ۔ اگرچہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں کو اس میٹنگ کے لیے مدعو کیا گیا ہے ، تاہم کشمیری مائیگرنٹ اس بات سے خفا ہیں کہ ان کے طبقہ کی کسی بھی جماعت کو اس میٹنگ کے لیے مدعو نہیں کیا گیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے ہونے والے کسی بھی فیصلے یا اقدام میں پانچ لاکھ کشمیری پنڈتوں کا ایک کلیدی رول بنتا ہے ، لہذا کسی بھی فیصلے سے پہلے اس طبقہ کے لوگوں سے بات ناگزیر ہے ۔
کشمیری پنڈتوں کے لیڈرا ڈاکٹر اگنی شیکھر کا الزام ہے کہ مرکزی سرکار نے ان پارٹیوں کو میٹنگ کے لیے مدعو کیا ہے ، جو بات بات پر مرکزی سرکار کے فیصلوں کی مخالفت کرتی آئی ہیں ۔ لیکن بدقسمتی کی وجہ سے ان لیڈروں کو میٹنگ کے لیے مدعو نہیں کیا گیا ہے ، جو ہندوستانی سرکار کے فیصلوں کے ہمیشہ حق میں رہے ہیں ۔ ان کا الزام ہے کہ گزشتہ سرکاروں کی طرح ہی موجودہ مرکزی سرکار بھی کشمیری مائیگرنٹوں کی وادی واپسی اور ان کی مکمل باز آبادکاری کو لے کر سنجیدہ نہیں ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اب انہیں امید ہے کہ کل ہونے والی اس میٹنگ میں مائیگرنٹوں کی باز آبادکاری کے حوالے سے کوئی ٹھوس فیصلہ کیا جائے گا۔
جموں کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر مغربی پاکستان اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے لگ بھگ دس لاکھ رفیوجیوں کو بھی اس میٹنگ سے کافی امیدیں وابستہ ہیں ۔ رفیوجی لیڈر لابھا رام گاندھی کا کہنا ہے کہ اسمبلی حلقوں کی از سر نو حد بندی کے وقت اس سماج کے لوگوں کے لیے سیٹیں مخصوص کی جانی چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ مرکزی سرکار نے جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ختم کرکے ان کے ساتھ انصاف کیا ہے ۔ تاہم ابھی بھی ان طبقوں کے کئی مسائل ہیں، جنہیں جلد حل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں دیگر سہولیات کے علاوہ پراپرٹی رائیٹس بھی فراہم کئے جانے چاہئیں ۔ ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ انہیں جو معاوضہ دیے جانے کو منظوری دی گئی تھی ، لیکن ابھی تک فی کنبہ پچیس لاکھ روپے میں سے صرف پانچ لاکھ روپے ہی دئے گئے ہیں ۔
پنجاب سے آکر جموں میں بسائے گئے والمکی سماج کے لگ بھگ چار لاکھ لوگوں کو بھی ہونے والی کل جماعتی میٹنگ سے امیدیں وابستہ ہیں ۔ سماج کے لیڈر جنگ بہادر کا کہنا ہے کہ اگرچہ انہیں جموں و کشمیر کے شہری ہونے کا درجہ موجودہ سرکار نے دلایا ۔ تاہم ابھی تک ان کی فلاح و بہبود اور روزگار کے سلسلے میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک وہ زمین جائیداد خرید نہیں پارہے ہیں ۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اس ضمن میں حائل رکاوٹوں کو بھی دور کیا جائے ۔
ایسا لگ رہا ہے کہ نئی دہلی میں ہونے والی کل جماعتی میٹنگ میں جموں و کشمیر کے سیاسی حالات اور سیاسی معاملوں پر بات ہوسکتی ہے۔تاہم اس میٹنگ میں اگر جموں و کشمیر کے مختلف طبقات کے مسائل اور ان کے مطالبات کو بھی زیر غور لایا جاتا تو یہ ایک خوش آئین قدم تصور کیا جاسکتا ہے ۔ ایسے میں انسانی مسائل کو ترجیح دے کر اس میٹنگ میں سیاست سے الگ بھی معاملات پر بات کرنے کی ضرورت ہے ۔