آٹھ ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی، جسٹس آر وی روی چندرن کمیٹی کی صدارت کریں گے
تین رکنی تکنیکی کمیٹی تحقیقات میں مدد کرے گی، کیس کی اگلی سماعت آٹھ ہفتے بعد ہوگی
نئی دہلی، 27 اکتوبر (انڈیا نیرٹیو)
سپریم کورٹ نے پیگاسس جاسوسی کیس کی سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ تین رکنی اس کمیٹی کی صدارت جسٹس آر وی روی چندرن کریں گے۔ اس کمیٹی کے دیگر ارکان سندیپ اوبرائے اور آلوک جوشی ہوں گے۔ یہ کمیٹی اس بات کی تحقیقات کرے گی کہ آیا پیگاسس کی جانب سے شہریوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی ہوئی ہے یا نہیں۔ عدالت نے کمیٹی کو آٹھ ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ کیس کی اگلی سماعت آٹھ ہفتے بعد ہوگی۔
عدالت نے اس جانچ کمیٹی کی مددکے لیے تین رکنی تکنیکی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ تکنیکی کمیٹی میں نیشنل فارنسک سائنس یونیورسٹیگاندھی نگر کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر نوین کمار چودھری، امریتا وشو ودیاپیٹھم امریتا پورم کیرالہ کے پروفیسر پربھاہرن پی اور آئی آئی ٹی بامبے کے پروفیسر ڈاکٹر اشون انل گماشتے شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کی خود کی ماہرین کمیٹی تشکیل دینے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کمیٹی تشکیل دی ہے۔ چیف جسٹس این وی رمنا کی قیادت والی بنچ نے کہا کہ قانون کی حکمرانی اور آئین سب سے اوپر ہے۔ شہریوں کی رازداری کے حق کا تحفظ ضروری ہے۔ عدالت نے کہا کہ پرائیویسی کے حق کی ایک حد ہوتی ہے لیکن وہ آئین کے دائرے میں ہونا چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ درخواست گزاربراہ راست متاثر ہیں اور کچھ نے مفاد عامہ کی عرضی دائر کی ہے۔
عدالت نے کہا کہ سالیسٹر جنرل کا یہ دعویٰ درست نہیں کہ درخواستیں ذاتی مفاد کے لیے دائر کی گئی ہیں۔ حکومت ہمیشہ سیکورٹی کی دلیل دے کربھاگ نہیں سکتی۔ عدالت اس معاملے میں خاموش تماشائی نہیں بنی رہ سکتی۔ عدالت نے کہا کہ لوگوں کی بے قابو جاسوسی کی اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ جاسوسی سے آزادی اظہار اور صحافت پر خطرناک اثر پڑتا ہے۔
عدالت نے 13 ستمبر کو فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔ سماعت کے دوران مرکز نے ایک غیر جانبدارانہ کمیٹی قائم کرنے کی تجویز پیش کی تھی، جو سپریم کورٹ کی نگرانی میں کام کرے گی۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا تھا کہ درخواست گزار چاہتے ہیں کہ حکومت لکھ کر دے کہ آیا وہ سافٹ ویئر کا استعمال کرتی ہے یا نہیں۔ ہمارا موقف ہے کہ حلف نامہ داخل کر کے اس پر بحث نہیں کر سکتے۔ آئی ٹی ایکٹ کا سیکشن 69 سیکورٹی کے لحاظ سے میں حکومت کو نگرانی کا اختیار دیتا ہے۔ ہم ایک غیر جانبدارکمیٹی بنائیں گے۔ تب چیف جسٹس این وی رمنا نے کہا تھا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ اس پر عرضی داخل ہو سکتی ہے۔ تب مہتا نے کہا تھا کہ عرضی تو ہو سکتی ہے، لیکن عوامی بحث نہیں ہے۔ ہم ایسی معلومات ملک کے دشمنوں تک نہیں جانے دے سکتے ہیں۔ تب چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ہم نے کہا تھا کہ حلف نامے میں حساس معلومات نہ لکھی جائے۔ صرف اتنا ہی پوچھا کہ کیا جاسوسی ہوئی ہے، کیا یہ حکومت کی اجازت سے کی ہوئی۔
سماعت کے دوران وکیل شیام دیوان نے آئی آئی ٹی کانپور کے ماہر سندیپ شکلا کے حلف نامے کی مثال دیتے ہوئے کہا تھا کہ جس شخص کی جاسوسی ہوئی، اسے اس کاعلم ہی نہیں ہو پاتا۔ دیوان نے کہا تھا کہ بین الاقوامی ماہر آنند وی نے بھی حلف نامہ داخل کیا ہے۔ انہوں بتایا کہ متاثرہ شخص کے فون میں دیگر سافٹ ویئر بھی ڈالے جا سکتے ہیں۔ صحافی پرانجے گوہا کے وکیل دنیش دویدی نے کہا تھا کہ سول پروسیجر کوڈ کہتاہے کہ اگر مدعا علیہ کسی بھی الزام سے انکار کرے تووہ واضح ہو۔ حکومت الزام کو بے بنیاد قرار دے رہی ہے،پھر کمیٹی بنانے کی تجویز بھی دے رہی ہے۔ دویدی نے کہا تھا کہ اس کا استعمال حکومت ہی کر سکتی ہے۔ اظہار رائے کومتاثرکیاجا رہا ہے۔
گذشتہ18 اگست کو عدالت نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا۔ عدالت نے واضح کیا تھا کہ وہ حکومت کو قومی سلامتی سے متعلق حساس کسی بھی چیز پر مجبور نہیں کر رہی ہے۔ عدالت نے کہا تھا کہ ہم نوٹس بیفور ایڈمیشن کر رہے ہیں۔ کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ بعد میں کریں گے۔
عدالت نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے پوچھا تھا کہ کیا آپ مزید حلف نامہ داخل نہیں کرنا چاہتے۔ تب مہتا نے کہا تھا کہ حکومت ہند عدالت کے سامنے ہے۔ درخواست گزار چاہتے ہیں کہ حکومت یہ سب بتائے کہ وہ کون سا سافٹ ویئر استعمال کرتی ہے اور کون سا نہیں۔ یہ سب قومی سلامتی کے مفاد میں حلف نامے کی صورت میں نہیں بتایاجا سکتا۔ سماعت کے دوران کپل سبل نے کہا تھا کہ حکومت کو حلف لے کر بتانا تھا کہ کیا اس نے کبھی بھی پیگاسس کا استعمال کیا ہے۔ اس حوالے سے واضح طور پر کچھ نہیں کہا۔ الزامات کی صرف تردید کر دی ہے۔
سپریم کورٹ میں پیگاسس کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے والی پانچ درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ عرضی داخل کرنے والوں میں وکیل منوہر لال شرما، سی پی ایم ممبر پارلیمنٹجان بریٹاس، سینئر صحافی این رام اور ششی کمار، پرانجے گوہا ٹھاکرتا سمیت پانچ صحافی اور ایڈیٹرس گلڈ شامل تھے۔