Urdu News

سپریم کورٹ آج شیوسینا میں تقسیم اور نئی حکومت کی تشکیل کے معاملے پرسماعت کرے گی

ادھو ٹھاکرے، شندے اور سپریم کورٹ

سپریم کورٹ میں مہاراشٹر معاملے پر سماعت جمعرات کو بھی جاری رہے گی۔  شیوسینا میں پھوٹ، نئی حکومت کی تشکیل، پارٹی پر دعویٰ کو لے کر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران آج ان قانونی مسائل کو طے کرنا تھا کہ جن پر آئینی بینچ سماعت کرے گی۔  ان معاملات پر دونوں فریق واضح نہیں تھے اس لیے قانونی معاملات طے نہیں ہو سکے۔

جیسے ہی آج سماعت شروع ہوئی، چیف جسٹس این وی رمنا نے پوچھا کہ کیا  فریقین نے کیس سے متعلق قانونی سوالات کا ایک مجموعہ جمع کروا دیا ہے۔ اس کے بعد مہاراشٹر کے گورنر کی جانب سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ میں ابھی جمع کروا رہا ہوں۔ ادھو گروپ کے وکیل کپل سبل نے کہا کہ اگر دو تہائی ایم ایل اے الگ ہونا چاہتے ہیں تو انہیں کسی کے ساتھ الحاق کرنا ہوگا یا نئی پارٹی بنانا ہوگی۔ وہ یہ نہیں کہہ ستے کہ وہ اصل پارٹی  ہیں۔ تب چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ انہیں بی جے پی میں ضم ہونا چاہیے تھا یا الگ پارٹی بنانی چاہیے تھی۔ تب سبل نے کہا کہ یہ قانون سے ہونا تھا۔

سبل نے کہا کہ پارٹی صرف ایم ایل ایز کا گروپ نہیں ہے۔ ان لوگوں کو پارٹی میٹنگ میں بلایا گیا تھا۔ وہ نہیں آئے۔ ڈپٹی سپیکر کو خط لکھا۔ اپنا وہپ مقررکر دیا۔ دراصل وہ پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ وہ اصل پارٹی ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ آج بھی شیوسینا کے صدر ادھو ٹھاکرے ہیں۔ سبل نے کہا کہ جب دسویں شیڈول (اینٹی ڈیفیکشن پروویژن) کو آئین میں شامل کیا گیا تو اس کا کچھ مقصد تھا۔ اگر اس طرح کے غلط استعمال کی اجازت دی جاتی ہے تو ایم ایل ایز کی اکثریت غیر منصفانہ طور پر حکومت گرا کر اقتدار حاصل کرتی رہے گی اور پارٹی کا دعویٰ بھی کرتی رہے گی۔

سبل نے کہا کہ پارٹی چھوڑنے والے ایم ایل اے کو نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ میں الیکشن کمیشن میں جا کر پارٹی کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہوں؟ ادھو  گروپ  کے دوسرے وکیل ابھیشیک منو ایس

سنگھوی نے کہا کہ ان لوگوں کو کسی نہ کسی پارٹی میں ضم ہونا تھا۔ وہ جانتے ہیں  کہ وہ حقیقی پارٹی نہیں  ہیں لیکن الیکشن کمیشن سے پہچان لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

شندے گروپ کے وکیل ہریش سالوے نے کہا کہ جس لیڈر کو اکثریت کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ وہ کیسے قائم رہ سکتا ہے؟ سبل نے جو کہا ہے اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ جب پارٹی میں اندرونی تقسیم ہو چکی ہے تو دوسرے دھڑے کے اجلاس میں شرکت نہ کرنا نااہلی کیسے ہو سکتی ہے؟ پھر چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح پارٹی کا کوئی مطلب نہیں رہے گا۔ ایم ایل اے منتخب ہونے کے بعد کوئی بھی کچھ بھی کرسکتا ہے۔ سالوے نے کہا کہ ہمارے پاس یہ وہم ہے کہ ایک لیڈر کو مکمل پارٹی سمجھا جاتا ہے۔ ہم ابھی تک پارٹی میں ہیں۔ ہم نے پارٹی نہیں چھوڑی۔ ہم نے لیڈر کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔

سالوے نے کہا کہ شیوسینا کو کسی نے نہیں چھوڑا ہے۔ پارٹی میں صرف 2 گروپ ہیں۔ کیا 1969 میں کانگریس میں بھی ایسا نہیں ہوا تھا؟ یہ کئی بار ہو چکا ہے۔ الیکشن کمیشن فیصلہ کرے۔ اسے ایم ایل اے کی نااہلی سے جوڑنا درست نہیں ہے۔ ویسے بھی انہیں کسی نے نااہل نہیں کیا۔ پھر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ الیکشن کمیشن کیوں گئے ہیں؟ سالوے نے تب کہا کہ وزیر اعلیٰ کے استعفیٰ کے بعد حالات بدل گئے ہیں۔ اب بی ایم سی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہ فیصلہ کرنا ضروری ہے کہ پارٹی کا انتخابی نشان کون استعمال کرے گا۔

سالوے نے کہا کہ سبل نے جو کچھ بھی کہا، وہ سب باتیں اب بے معنی ہیں۔ پھر چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ دونوں میں سے پہلے سپریم کورٹ میں کون آیا تھا؟ تب سالوے نے کہا کہ ہم آئے تھے کیونکہ ڈپٹی اسپیکر نے نااہلی کا نوٹس بھیجا تھا لیکن خود انہیں ہٹانے کی کارروائی زیر التوا ہے۔ نبام ریبیا کے فیصلے کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر سکے۔ تب چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے سماعت 10 دن کے لیے ملتوی کر دی تھی۔ اس دوران آپ نے حکومت بنا لی۔ اسپیکربدل گئے۔ اب آپ کہہ رہے ہیں، سب کچھ بے معنی ہے۔ تب سالوے نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ اب ان باتوں پر غور نہیں کرنا چاہئے۔ تو چیف جسٹس نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم تمام معاملات سنیں گے۔ شندے کیمپ کے دوسرے وکیل نیرج کشن کول نے کہا کہ دوسرا فریق چاہتا ہے کہ کوئی دوسرا آئینی ادارہ اپنا کام نہ کرے۔ ہر چیز کا فیصلہ سپریم کورٹ کو اپنی جگہ پر کرنا چاہیے۔ پھر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سب سے پہلے سپریم کورٹ آئے۔

اہم بات یہ ہے کہ ادھو ٹھاکرے گروپ کی جانب سے سپریم کورٹ میں کہا گیا ہے کہ شندے گروپ نے جھوٹا بیانیہ گھڑا ہے کہ ان کے ووٹر شیوسینا کے ساتھ این سی پی اور کانگریس کے اتحاد سے ناراض ہیں۔ جبکہ سچی بات یہ ہے کہ وہ ڈھائی سال حکومت میں وزیر رہے اور اس سے پہلے کبھی اس پر اعتراض نہیں کیا۔

ادھو ٹھاکرے کے گروپ نے کہا ہے کہ بی جے پی نے کبھی شیو سینا کو برابر کا درجہ نہیں دیا حالانکہ اس حکومت میں شیو سینا کے لیڈر وزیر اعلیٰ بنے تھے۔ جس دن یہ حکومت اقتدار میں آئی، شنڈے گروپ کے ایم ایل اے نے ہمیشہ اس کا فائدہ اٹھایا۔ اس سے پہلے انہوں نے ووٹروں کی ناراضگی کے بارے میں کبھی نہیں بتایا۔ اگر ایسا ہوتا تو انہیں کابینہ میں شامل نہ کیا جاتا۔

ادھو ٹھاکرے دھڑے نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کو اس وقت تک اپنی کارروائی نہیں کرنی چاہئے جب تک شندے دھڑے کے ایم ایل ایز کی نااہلی کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ چونکہ شندے دھڑے کے ایم ایل ایز کی نااہلی کا معاملہ زیر التوا ہے، الیکشن کمیشن یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ شیوسینا کا اصل کون ہے۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے دونوں جماعتوں سے 8 اگست تک دستاویزات طلب کرلی ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ مہاراشٹر کے گورنر کی جانب سے ایکناتھ شندے کو حکومت بنانے کی دعوت دینے کے ٹھاکرے گروپ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 3 اور 4 جولائی کو ہونے والی مہاراشٹر قانون ساز اسمبلی کی کارروائی میں نئے اسپیکر کے انتخاب اور شندے حکومت کے اعتماد کے ووٹ کی کارروائی کو غیر قانونی بتایا گیا ہے۔

ٹھاکرے دھڑے نے لوک سبھا اسپیکر اوم برلا کے ممبران پارلیمنٹ کو ہٹانے کے فیصلے کو بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ یہ عرضی ایم پی ونائک راوت اور راجن وچارے نے دائر کی ہے۔

درخواست میں لوک سبھا میں شیو سینا پارلیمانی پارٹی کے لیڈر اور بھاونا گاولی کی چیف وہپ کے طور پر راہل شیوالے کی تقرری کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ لوک سبھا اسپیکر کا فیصلہ من مانی اور پارلیمنٹ میں شیوسینا کے مجاز نمائندوں کے فیصلوں کے خلاف ہے۔ درخواست میں کہا گیا کہ شیو سینا نے لوک سبھا اسپیکر کو مطلع کیا ہے کہ ونائک راوت کو لوک سبھا میں پارٹی کا لیڈر اور راجن وچارے کو چیف وہپ قرار دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود اسپیکر نے شندے دھڑے کے امیدوار کی منظوری دے دی۔ یہاں تک کہ لوک سبھا اسپیکر نے بھی شیو سینا سے کوئی وضاحت نہیں مانگی۔

Recommended