Urdu News

امید مارکیٹ پلیس: نیا جموں اور کشمیر میں دیہی خواتین کو بااختیار بنانے کی جانب ایک اور قدم

نیا جموں اور کشمیر

’نیا جموں و کشمیر‘میں دیہی خواتین کو بااختیار بنانے کی سمت ایک اور قدم  میں، حکومت نے سری نگر اور جموں میں ائیرپورٹ اتھارٹی آف انڈیا کی’’اوسر‘‘ اسکیم کے تحت خطے کے ہنر مند کاریگروں کے لیے ہوائی اڈے پر’’امید مارکیٹ پلیس‘‘کھول دی ہے۔  ہوائی اڈے آؤٹ لیٹس یونین ٹیریٹری کے تمام 20 اضلاع کے سیلف ہیلپ گروپس کے ذریعہ تیار کردہ مصنوعات کی نمائش کریں گے۔  سیلف ہیلپ گروپس سے وابستہ پانچ لاکھ سے زیادہ خواتین’’امید مارکیٹ پلیس‘‘ کے قیام سے مستفید ہوں گی کیونکہ انہیں 15 دنوں کے لیے باری باری اسٹالز پیش کیے جائیں گے۔یہ کاؤنٹرز مسافروں کے لیے بلک آرڈر دینے اور کارپوریٹ گفٹ کے لیے اپنی مرضی کے مطابق مطالبات کی درخواست کرنے کے لیے بھی کام کریں گے۔ دیہی علاقوں میں تیار کردہ مصنوعات کے لیے ہوائی اڈوں پر بازار جموں و کشمیر میں سیلف ہیلپ گروپس کی مرئیت کو بڑھانے اور دیہی دستکاریوں کو مسافروں کو مناسب نرخوں پر دستیاب کرانے کی سمت میں ایک قدم ہیں۔’امید مارکیٹ پلیس‘ دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کاریگروں کو مارکیٹ کے نئے رجحانات سے مانوس ہونے اور صارفین کی ضروریات کے مطابق اپنی مصنوعات میں ترمیم کرنے کا موقع بھی فراہم کرے گی۔

سیلف ہیلپ گروپس کی مصنوعات کو قومی بازار میں نمائش ملے گی اور یہ دیہی خواتین کاریگروں کو بالکل مختلف ماحول میں اپنی مصنوعات کو فروغ دینے کا موقع فراہم کرے گی۔ سیاحوں کی بڑی آمد نے سری نگر اور جموں ہوائی اڈوں کو جموں و کشمیر کے مصروف ترین مقامات کے طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ ہوائی اڈوں پر بڑے پیمانے پر لوگوں کی آمد’’امید مارکیٹ پلیس‘‘کے لیے ایک پلس پوائنٹ ہے۔ سیلف ہیلپ گروپس اس وقت جموں و کشمیر میں 56,000 سے زیادہ سیلف ہیلپ گروپس ہیں اور حکومت نے اس سال کے آخر تک مزید 11,000 سیلف ہیلپ گروپس بنانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ مرکز کی جانب سے اگست 2019 میں آئین ہند کی ایک عارضی شق آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے فوراً بعد، حکومت نے جموں و کشمیر کی خواتین کو بااختیار بنانے کے مشن پر کام شروع کیا، جو ہمالیہ کے خطے میں 30 سالہ طویل پاکستان کی سرپرستی میں دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار تھیں۔نئے سیلف ہیلپ گروپس کی تشکیل اور پرانے گروپوں کو فعال کرنا سابقہ ریاست میں خواتین کو بااختیار بنانے کے اقدامات کا ایک حصہ تھا۔ جموں و کشمیر کے نام نہاد خصوصیت کو منسوخ کرنے اور اسے یونین ٹیریٹری میں تبدیل کرنے کے بعد، ہمالیائی خطہ نے سماج کے پسماندہ طبقات کی ترقی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کوآپریٹو تحریک میں نشاۃ ثانیہ کا مشاہدہ کیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے نعرے’سہکار سے سمردھی‘کو زرعی مارکیٹنگ، فوڈ پروسیسنگ، برانڈنگ، بیجوں کی سپلائی اور ڈیری اور دستکاری میں دیگر اختراعی سرگرمیوں پر توجہ کے ساتھ عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے۔

خواتین پی ایم مودی کے مشن کا لازمی حصہ بن چکی ہیں۔ 5 اگست 2019 کے بعد کی اصلاحات 5 اگست 2019 کے بعد حکومت کی طرف سے متعارف کرائی گئی اصلاحات نے جموں و کشمیر کی خواتین کو تبدیلی کا سرچشمہ بنایا ہے۔ انہوں نے جموں و کشمیر میں سیلف ہیلپ گروپس کو متحرک کاروباری اداروں کے طور پر تبدیل کر دیا ہے اور خطے میں انتہائی ضروری ترقی اور بااختیار بنانے کے لیے آگے سے قیادت کی ہے۔ ساتھ، حوصلہ، امید، وغیرہ جیسے اقدامات نے خواتین کی مالی آزادی کی مضبوط بنیاد رکھی ہے۔

جموں و کشمیر کی حکومت نے ہیلپ لائن 181 کے ساتھ جڑے ون اسٹاپ سینٹر کے ساتھ مرکزی علاقے کے تمام اضلاع میں مہیلا شکتی کیندر قائم کئے ہیں۔ ان کے حقوق اور بیداری پیدا کرنے، تربیت اور صلاحیت کی تعمیر کے ذریعے انہیں بااختیار بنانے کے لیے پردھان منتری مہیلا سشکتی کرن یوجنا چھتری اسکیم کے تحت مہیلا شکتی کیندر اسکیم دیہی خواتین کو حکومت سے رجوع کرنے کے لیے ایک انٹرفیس فراہم کرتی ہے۔ دیہی خواتین نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا گزشتہ تین سالوں کے دوران دیہی علاقوں کی خواتین نے اپنی محنت اور خلوص سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ شہری علاقوں کی خواتین سے کم نہیں ہیں۔ ابھی کچھ سال پہلے، خاص طور پر جموں و کشمیر کے دیہی علاقوں میں خواتین کے پاس صرف ایک ہی کردار تھا، یعنی گھر کے کاموں میں مصروف رہنا۔ مالی طور پر خود مختار بننا بھی ان کے لیے کوئی آپشن نہیں تھا۔  وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں جموں و کشمیر کی نام نہاد خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے لیا گیا جرات مندانہ فیصلہ جموں و کشمیر کی زمینی صورتحال میں مجموعی طور پر بہتری کا باعث بنا اور اس کے نتائج واضح ہیں۔ جموں و کشمیر کی خواتین، جنہیں 5 اگست 2019 تک اشیاء کے طور پر سمجھا جاتا تھا، ملک بھر میں اپنے ہم منصبوں کے لیے رول ماڈل اور تحریک کے طور پر ابھری ہیں۔ جموں و کشمیر کی خواتین اب بندوق بردار دہشت گردوں سے خوفزدہ نہیں ہیں، جو برقع(نقاب) نہ پہننے پر ان پر تیزاب پھینکتے تھے۔ حکومت کی طرف سے مدد کا ہاتھ بڑھایا گیا ہے جس کی وجہ سے ہمالیائی خطے میں خواتین کی حقیقی صلاحیتیں سامنے آ رہی ہیں۔ تفاوت کا خاتمہ خواتین کے ذریعہ چلائے جانے والے سیلف ہیلپ گروپس کے ذریعہ تیار کردہ مصنوعات نے سخت مسابقتی مارکیٹ میں جگہ بنائی ہے۔

دور دراز دیہی علاقوں کی خواتین سماجی و اقتصادی ترقی کے پہیے کو رواں دواں رکھے ہوئے ہیں۔ جموں و کشمیر کے سماج میں 70 سالوں سے موجود تفاوت اور عدم مساوات ختم ہو چکی ہے اور خواتین کو مردوں کے ساتھ مساوی مواقع فراہم کئے جا رہے ہیں۔ بہت سی خواتین، جو اپنے گھروں کی چار دیواری میں قید رہتی تھیں، اپنے آئیڈیاز پر کام کرنے کا موقع پا کر کامیاب کاروباری بن چکی ہیں۔ دیہی علاقوں میں سیلف ہیلپ گروپس نے سماج کے مختلف طبقوں کی خواتین کو ایک دوسرے کے قریب لایا ہے۔ وہ پراعتماد ہیں اور ایک ایسے راستے پر چل رہی ہیں جس نے انہیں یقین دلایا ہے کہ محنت، لگن اور خلوص کامیابی کی کنجی ہیں۔ حکومت خواتین کو بااختیار بنانے میں ان کے تعاون کے اعتراف کے طور پر یوم آزادی کے موقع پر دیہی روزی روٹی مشن سیلف ہیلپ گروپس سے تعلق رکھنے والی 75 ترقی پسند خواتین صنعت کاروں کو اعزاز دینے کے لیے تیار ہے۔ حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات نے دیہی علاقوں کی خواتین میں تحفظ کے ایک نئے احساس کو جنم دیا ہے۔ خواتین سیاسی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔

وہ پنچ، سرپنچ اور ضلع اور بلاک ترقیاتی کونسلوں کے ممبر بن گئی ہیں۔ وہ اپنی تمام کوششوں میں مردوں کا ساتھ دے رہی ہیں اور برابر کی ذمہ داریاں بانٹ رہی ہیں۔ دیہی جموں و کشمیر بدل گیا ہے اور اس تبدیلی کو لانے میں خواتین کا اہم کردار ہے۔ انہوں نے ممنوعات اور سماجی بدنامیوں کو دور کرکے دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کو منہ توڑ جواب دیا ہے۔ سری نگر اور جموں کے ہوائی اڈوں پر واقع’’امید مارکیٹ پلیس‘‘نے انہیں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے اور گھر کو چلانے کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے کہ جموں و کشمیر کے دیہی علاقوں کی خواتین دنیا میں کسی سے بھی مقابلہ کر سکتی ہیں۔

Recommended