Urdu News

غریب کلیان سمیلن ، شملہ میں وزیراعظم کے خطاب کا متن

وزیراعظم

 

بھارت ماتا کی، جے۔

بھارت ماتا کی، جے۔

ہماچل پردیش کے گورنر جناب راجندر جی، یہاں کے مقبول اور محنتی وزیر اعلیٰ میرے دوست جناب جئے رام ٹھاکر جی، ریاست کے صدر ہمارے پرانے ساتھی جناب سریش جی، مرکز کی وزارتی  کونسل کے میرے ساتھیوں،  اراکین پارلیمنٹ ، ایم ایل اے، ہماچل کے تمام عوامی نمائندے۔ آج میری زندگی میں ایک خاص دن بھی ہے اور اس خاص دن پراس دیوبھومی کو پرنام کرنے کا موقع ملے، اس سے بڑی زندگی میں خوش قسمتی کیا ہوسکتی  ہے۔ آپ اتنی بڑی تعداد میں ہمیں آشیرواد دینے کے لیے آئے میں آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔

ابھی، ملک کے کروڑوں -کروڑ کسانوں کو ان کے کھاتے میں  پی ایم کسان سمان ندھی کا پیسہ ٹرانسفر ہوگیا، پیسے ان کو مل بھی گیا، اور آج مجھے شملہ کی سرزمین سے ملک کے 10 کروڑ سے بھی زیادہ کسانوں کے کھاتے  میں پیسے پہنچانے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ وہ کسان بھی شملہ کو یاد کریں گے، ہماچل کو یاد کریں گے، اس دیو بھومی کو یاد کریں گے۔ میں ان سبھی کسان بھائیو اور بہنو کو دل سے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں، بہت سی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو،

یہ پروگرام شملہ میں ہے، لیکن ایک طرح سے یہ پروگرام آج پورے ہندوستان کا ہے۔ہماری یہاں بات چیت چل رہی تھی کہ سرکار کے آٹھ سال ہونے پر کیسا پروگرام کیا جائے، کون سا پروگرام کیا جائے۔ تو ہمارے نڈا جی، جو ہماچل کے ہی ہیں، ہمارے جےرام جی؛ ان کی طرف سے ایک  تجویز آئی  اور دونوں  تجاویز  مجھے بہت اچھی لگیں ۔ ان آٹھ سال کی بدولت  کل مجھے کورونا دور میں جن بچوں نے اپنی ماں اور باپ دونوں کو کھو دیا، ایسے بچوں کا ذمہ سنبھالنے کا موقع کل مجھے ملا۔ ملک کے ان ہزاروں بچوں کی دیکھ بھال کا فیصلہ سرکار نے کیا، اور کل ان کو میں نے کچھ پیسے بھی بھیج دیئے ڈیجیٹل طریقے سے۔آٹھ سال  مکمل ہونے پر  ایسا پروگرام ہونا من کو بہت سکون دیتا ہے،خوشی دیتا ہے۔ اور پھر میرے سامنے تجویز آئی کہ ہم ایک پروگرام ہماچل میں کریں، تو میں نے آنکھ بند کرکے ہاں کہہ دیا ۔ کیونکہ میری زندگی میں ہماچل کا مقام اتنا بڑا ہے، اتنا بڑا ہے اور خوشی کے لمحے اگر ہماچل میں آکر کے گزارنے کا موقع ملے تو پھر تو بات ہی کیا بنتی ہے جی۔ آج اس لئے میں نے کہا آٹھ سال کے لئے ملک کا یہ اہم پروگرام آج شملہ کی سرزمین پر ہورہا ہے، جو کبھی میری کرم بھومی رہی، میرے لئے جو دیوبھومی ہے، میرے لئے جو مقدس سرزمین  ہے۔ وہا ں پر مجھے آج اہل وطن کو اس دیوبھومی سے بات کرنے کا موقع ملے، یہ اپنے آپ میں میرے لئے خوشی کئی گنا بڑھا دینے والا کام ہے۔

ساتھیو،

130 کروڑ بھارتیوں کے سیوک کے طور پر کام کرنے کا مجھے آپ سب نے جو موقع دیا ، مجھے جو اچھا موقع ملا ہے، سبھی بھارتیوں کا جو اعتماد مجھے ملا ہے، اگر آج میں کچھ کر پاتا ہوں، دن-رات دوڑ پاتا ہوں، تو یہ مت سوچئے کہ مودی کرتا ہے، یہ مت سوچئے کہ مودی دوڑتا ہے۔ یہ سب تو 130 کروڑ اہل وطن کی مہربانی سے ہورہا ہے، آشرواد سے ہورہا ہے، ان کی بدولت ہی ہورہا ہے، ان کی طاقت  سے ہورہا ہے۔ خاندان کے ایک ممبر کے طور پر میں نے کبھی بھی اپنے آپ کو اس عہدے پر دیکھا نہیں، تصور بھی نہیں کیا ہے، اور آج بھی نہیں کررہا ہوں کہ میں کوئی وزیراعظم ہوں۔ جب فائل پر سائن کرتا ہوں، ایک ذمہ داری ہوتی ہے، تب تو وزیراعظم کی ذمہ داری کے طور پر مجھے کام کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اس کے بعد فائل جیسے ہی چلی جاتی ہے تو میں وزیراعظم نہیں رہتا ہوں، میں صرف اور صرف 130 کروڑ اہل وطن کے پریوار کا ممبر بن جاتا ہوں۔ آپ ہی کے پریوار کے ممبر کے طور پر میں ایک پردھان سیوک کے طور پر جہاں بھی رہتا ہوں، کام کرتا ہوں اور آگے بھی ایک پریوار کے ممبر کے ناطے ، پریوار کی امیدوں- آرزووں  سے جڑنا، 130 کروڑ اہل وطن کا پریوار، یہی سب کچھ ہے میری زندگی میں ۔ آپ ہی ہیں سب کچھ میری زندگی میں اور یہ زندگی بھی آپ ہی کے لئے ہے۔ اور جب ہماری سرکار اپنے آٹھ سال مکمل کررہی ہے ، تو آج میں پھر سے ، میں اس دیوبھومی سےاپنے عزم  کا پھر سے اعادہ کروں  گا، کیونکہ سنکلپ کو بار بار یاد کرتے رہنا چاہئے، سنکلپ کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے، اور میرا سنکلپ تھا، آج ہے ، آگے بھی رہے گا۔ جس سنکلپ کے لئے جیؤں گا، جس سنکلپ کے لئے لڑتا رہوں گا، جس سنکلپ کے لئے آپ سب کے ساتھ چلتا رہوں گا، اور اس لئے میرا یہ سنکلپ ہے اہل وطن کی عزت و احترام  کے لئے ، ہر اہل وطن کی حفاظت، اس ہر اہل وطن کی خوشحالی کیسے بڑھے، اہل وطن کو امن-سکون کی زندگی کیسے ملے، اس ایک جذبے سے غریب سے غریب ہو، دلت ہو، مظلوم ہو،استحصال کیا گیاہو، دوردراز  جنگلوں میں رہنے والے لوگ ہوں، پہاڑی کی چوٹیوں پر رہنے والے اکا دکا رہنے والےچند پریوار ہوں، ہر کسی کی فلاح و بہبود  کے لئے ، جتنا زیادہ کام کرسکتا ہوں، اس کو کرتا رہوں، اسی جذبے کو لے کر میں آج پھر سے ایک بار اس دیوبھومی سے اپنے آپ  کو عہدبند کرتا ہوں ۔

ساتھیو،

ہم سبھی مل کر بھارت کو اس بلندی تک پہنچائیں گے، جہاں پہنچنے کا خواب آزادی کے لئے مر مٹ جانے والے لوگوں نے دیکھا تھا۔ آزادی کے اس امرت مہوتسو میں، بھارت کے بہت روشن مستقبل کے یقین کے ساتھ ، بھارت کی نوجوان طاقت، ، بھارت کی خواتین کی طاقت، اس پر پورا اعتماد رکھتے ہوئے میں آج آپ کے بیچ آیا ہوں۔

ساتھیو،

زندگی میں جب ہم بڑے اہداف کی طرف آگے بڑھتے ہیں، تو کئی مرتبہ یہ دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ ہم چلے کہاں سے تھے، شروعات کہاں سے کی تھی۔ اور جب اس کو یاد کرتے ہیں تبھی تو حساب-کتاب کا پتہ چلتا ہے کہ کہاں سے نکلے اور کہاں پہنچے، ہماری رفتار کیسی رہی، ہماری ترقی کیسی رہی، ہماری کامیابیاں کیا رہیں۔ ہم اگر 2014 سے پہلے  کے دنوں کو یاد کریں، ان دنوں کو بھولنا مت ساتھیو، تب جا کرکے ہی آج کے دنوں کی قدر سمجھ میں  آئے گی۔ آج کی صورتحال کو دیکھیں، پتہ چلے گا ساتھیو، ملک نے بہت لمبا سفر طے کیا ہے۔

2014 سے پہلے اخبار کی سرخیوں میں بھری رہتی تھی، ہیڈلائن بنی رہتی تھی، ٹی وی پر بحث ہوتی رہتی تھی۔ بات کیا ہوتی تھی، بات ہوتی تھی لوٹ اور کھسوٹ کی، بات ہوتی تھی بدعنوانی کی، بات ہوتی تھی گھپلے کی، بات ہوتی تھی بھائی-بھتیجاواد کی، بات ہوتی تھی افسرشاہی کی، بات ہوتی تھی اٹکی -لٹکی بھٹکی اسکیموں کی۔لیکن وقت بدل چکا ہے، آج بحث ہوتی ہے سرکاری اسکیموں سے ملنے والے فائدے کی۔ سرمور سے ہماری کوئی سمادیوی کہہ دیتی ہے کہ مجھے یہ فائدہ مل گیا۔ آخر گھر تک پہنچنے کی کوشش ہوتی ہے۔ غریبوں کے حق کا پیسہ سیدھے ان کے کھاتوں میں پہنچنے کی بات ہوتی  ہے، آج بحث ہوتی ہے، دنیا میں بھارت کے اسٹارٹ اپ کی، آج بحث ہوتی ہےورلڈبینک بھی ذکر کرتا ہے بھارت کے از آف ڈوئنگ بزنس کا ، آج ہندوستان کے بے قصور شہری ذکر کرتے ہیں  مجرموں پر شکنجہ کسنے کی ہماری طاقت کا، بدعنوانی کے خلاف زیرو ٹال رینس  کےساتھ آگے بڑھنے کا۔

2014 سے پہلے کی سرکار نے بدعنوانی کو سسٹم کا ضروری حصہ مان لیا تھا، تب کی سرکار بدعنوانی سے لڑنے کی بجائے ، اسکے آگے گُھٹنے ٹیک چکی تھی، تب ملک دیکھ رہا تھا کہ اسکیموں کا پیسہ ضرورت مند تک پہنچنے سے پہلے ہی لوٹ جاتا ہے۔ لیکن آج بحث جن-دھن کھاتوں سے ملنے والے فوائد کی ہورہی ہے، جن دھن-آدھار اور موبائل سے بنی تہری طاقت کی ہورہی ہے۔ پہلے رسوئی میں دھواں سہنے کی مجبوری تھی، آج اجول یوجنا سے سلنڈر حاصل کرنے کی سہولت ہے۔ پہلے کھلے میں رفع حاجت کی بے بسی تھی ، آج گھر میں بیت الخلا بنواکر عزت سے جینے کی آزادی ہے۔ پہلے علاج کے لئے پیسے جمع کرنے کی بے بسی تھی ، آج ہر غریب کو آیوشمان بھارت کا سہارا ہے۔ پہلے ٹرپل طلاق کا ڈر تھا ، اب اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے کا حوصلہ ہے۔

ساتھیو،

2014 سے پہلے  ملک کی حفاظت کو لے کر فکر تھی، آج سرجیکل اسٹرائیک ، ایئر اسٹرائیک کا فخر ہے، ہماری سرحد پہلے سے زیادہ محفوظ ہیں۔ پہلے ملک کا نارتھ ایسٹ اپنے غیرمتوازن ترقی سے ، سوتیلے برتاؤ  سےپریشان تھا، دکھی تھا۔ آج ہمارا نارتھ ایسٹ دل سے بھی جڑا ہے اور جدید انفراسٹرکچر سے بھی جڑرہا ہے۔ سیوا، سُشاسن اور غریبوں کی فلاح و بہبود کے لئے بنی ہماری اسکیموں نے لوگوں کے لئے سرکار کے معنی ہی بدل دئے ہیں۔ اب سرکار مائی -باپ نہیں ہے، وہ وقت چلا گیا، اب سرکار سیوک ہے سیوک ، جنتا-جناردن کی سیوک۔ اب سرکار زندگی میں دخل دینے کے لئے نہیں بلکہ زندگی کو سہل بنانے کے لئے کام کررہی ہے۔ گزشتہ برسوں میں ہم ترقی کی سیاست کو ، ملک کے مرکزی  دھارے میں لائے ہیں۔ ترقی کی اس آرزو میں لوگ مستحکم سرکار منتخب کررہے ہیں، ڈبل انجن کی سرکار منتخب کررہے ہیں۔

ساتھیو،

ہم لوگ اکثر سنتے ہیں کہ سرکاریں آتی ہیں، جاتی ہیں، لیکن سسٹم وہی رہتا ہے۔ ہماری سرکار نے اس سسٹم کو ہی غریبی کے لئے زیادہ حساس بنایا، اس میں مسلسل اصلاح کی۔ پی ایم آواس یوجنا ہو، اسکالرشپ دینا ہو یا پھر پنشن یوجنائیں، ٹکنالوجی کی مدد سے ہم نے بدعنوانی کا اسکوپ کم سے کم کردیا ہے۔جن مسائل کو پہلے پرماننٹ مان لیا گیا تھا، ہم اس کے پرماننٹ سالیوشن دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ جب سیوا،سشاسن اور غریبوں کی فلاح وبہبود کا ہدف ہو، تو کیسے کام ہوتا ہے، اس کی ایک مثال ہے ڈائرکٹ بینیفٹ ٹرانسفر اسکیم، ابھی میں جو کہہ رہا تھا ، ڈی بی ٹی کے ذریعہ سے، ڈائرکٹ بینیفٹ اسکیم کے  توسط  سے ، دس کروڑ سے زیادہ کسان کنبوں کے بینک کھاتے میں براہ راست 21 ہزار کروڑ روپئے ٹرانسفر ہوگئے ہیں۔ یہ ہمارے چھوٹے کسانوں کی خدمت کے لئے ہیں ، ان کے سمّان کی ندھی ہے۔ گزشتہ 8 سال میں ایسے ہی ڈی بی ٹی کے ذریعہ ہم نے 22 لاکھ کروڑ روپئے  سے براہ راست ملک کے لوگوں کے اکاونٹ میں ٹرانسفر  کئے ہیں ۔ اور ایسا نہیں ہوا کہ 100 پیسہ بھیجا تو پہلے 85 پیسہ لاپتہ ہوجاتا تھا۔ جتنے پیسے بھیجے، وہ پورے کے پورے صحیح پتہ پر ، صحیح  مستفیضین کے بینک کھاتوںمیں بھیجے گئے ہیں۔

ساتھیو،

آج اس یوجنا کی وجہ سے سوا دو لاکھ کروڑ روپئے کی لیکج رکی ہے۔ پہلے یہی سوا دو لاکھ کروڑ روپئے بچولیوں کے ہاتھوں میں چلے جاتے تھے، دلالوں کے ہاتھوں میں چلے جاتے تھے۔ اسی ڈی بی ٹی کی وجہ سے ملک میں سرکاری اسکیموں کا غلط فائدہ اٹھانے والے 9 کروڑ سے زیادہ فرضی ناموں کو ہم نے لسٹ سے ہٹایا ہے ۔ آپ سوچئے، فرضی نام کاغذوں میں چڑھا کر گیس سبسڈی، بچوں کی تعلیم کے لئے بھیجی گئی فیس،  تغذیہ کی کمی   سے نجات کے لئے بھیجی گئی رقم، سب کچھ لوٹنے کا ملک میں کھلا کھیل چل رہا تھا۔ یہ کیا ملک کے غریب کے ساتھ ناانصافی نہیں تھی، جو بچے روشن مستقبل کی امید کرتے ہیں، ان بچوں کے ساتھ ناانصافی نہیں تھی، کیا یہ گناہ نہیں تھا؟  اگر کورونا  کے وقت یہی 9 کروڑفرضی نام کاغذوں میں رہتے تو کیا غریب کو سرکار کی کوششوں کا فائدہ مل پاتا کیا ؟

ساتھیو،

غریب کی جب روزمرہ کی جدوجہد کم ہوتی ہے، جب وہ بااختیار ہوتا ہے، تب وہ اپنی غریبی دور کرنے کے لئے نئی توانائی کے ساتھ جٹ جاتا ہے۔ اسی سوچ کے ساتھ ہماری سرکار پہلے دن سے غریب کو مضبوط  کرنے میں مصروف ہے۔ ہم نے اس کی زندگی کی ایک ایک پریشانی کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ آج ملک کے 3 کروڑ غریبوں کے پاس ان کے پکے اور نئے گھر بھی، جہاں آج وہ رہنے لگے ہیں۔ آج ملک  کے 50 کروڑ سے زیادہ غریبوں کے پاس پانچ لاکھ روپئے تک کے مفت علاج کی سہولت ہے۔ آج ملک کے 25 کروڑ سے زیادہ غریبوں کے پاس  دو،دو لاکھ روپئے کا ایکسی ڈنٹ  انشورنس اور ٹرم انشورنس  ہے، بیمہ ہے۔ آج ملک کے تقریباً 45 کروڑ غریبوں کے پاس جن دھن بینک کھاتہ ہے۔ میں  آج بہت فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ ملک میں شاید ہی کوئی ایسا خاندان ہوگا جو سرکار کی کسی نہ کسی اسکیم سے منسلک نہ ہو، اسکیم اسے فائدہ نہ پہنچاتی ہو۔ ہم نے دور دراز تک پہنچ کر لوگوں کو ویکسین لگائی ہے، ملک تقریباً 200 کروڑ ویکسین ڈوز کے ریکارڈ سطح  پر پہنچ رہا ہے اور میں جے رام  جی  کو مبارکباد دوں گا، کورونا دور میں جس طرح سے ان کی سرکار نے کام کیا ہے، اور انہوں  نے یہ ٹورسٹ ڈیسٹی نیشن ہونے کی وجہ سے ٹورزم  کے لئے تکلیف نہ ہو، اس لئے انہوں نے ویکسی نیشن کو اتنی تیزی سے چلایا،ہندوستان میں سب سے پہلے ویکسی نیشن کا کام پورا کرنے والوں میں جے رام جی کی سرکار صف اول میں رہی۔ ساتھیو، ہم نے گاوں میں رہنے والے چھ کروڑ خاندانوں کو صاف پانی کے کنکشن سے جوڑا ہے، نل سے جل۔

Recommended