وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ دیو بھومی اتراکھنڈ سب کے لیے ترغیب کا ذریعہ ہے۔ وزیر اعظم نے گڑھوالی کماونی زبان میں اپنے خطاب سے لوگوں کے دل جیت لیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ آپ سب خیریت سے ہوں گے، میں ایک خادم کی حیثیت سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔
اتراکھنڈ کے لوگوں سے اظہار تشکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ دیو بھومی اتراکھنڈ سب کے لیے تحریک کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتراکھنڈ نہ صرف پورے ملک کے لئے آستھا کا مرکز ہے۔انہوں نے کہا کہ اتراکھنڈ پورے ملک کی آستھا ہی نہیں بلکہ عمل اور سختی کی زمین ہے۔ اس لیے اس کی ترقی، اسے شاندار شکل دینا، ڈبل انجن والی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ گزشتہ 5 سالوں میں اتراکھنڈ کی ترقی کے لیے مرکز نے 100000 کروڑ سے زیادہ کی رقم دی ہے۔ یہ رقم مختلف منصوبوں کے لیے دی گئی ہے۔ یہاں کی حکومت انہیں تیزی سے زمین پر اتار رہی ہے۔ اسے آگے لے کر آج اٹھارہ ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کے پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا جا رہا ہے۔انھوں نے ایسے سات پروجیکٹوں کا افتتاح کیا جن کا اصل مقصد ان خطہ میں تودے کھسکنے کے دیرینہ مسئلے کو حل کرکے سفر کو محفوظ بنانا ہے۔ ان میں دیو پریاگ سے سری کوٹ تک کی سڑک چوڑی کرنے کا پروجیکٹ، این ایچ- 58 پر برہم پوری سے کوڈی بالا سڑک کو چوڑا کرنا، 120 میگاواٹ کا دیاسی ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ جسے دریائے جمنا پر بنایا گیا ہے، دہرادون میں ہمالین کلچر سینٹر اور دہرادون میں جدید ترین کی پرفیومری اینڈ ا?روما لیباریٹری (سینٹر فار آرومیٹک پلانٹس) شامل ہیں۔
حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اتراکھنڈ صرف عقیدت کا مرکز نہیں ہے، بلکہ یہ سخت محنت اور عزم مصمم کی علامت بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ ریاست کی ترقی مرکز اور ریاست کی ڈبل انجن سرکار کی اعلیٰ ترین ترجیحات میں شامل ہے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ اس صدی کے آغاز میں اٹل جی نے بھارت میں کنیکٹیوٹی میں اضافہ کرنے کے لئے ایک مہم شروع کی۔ تاہم وزیر اعظم کے بقول اس کے بعد ملک میں دس برس تک ایسی حکومت رہی جس نے ملک اور اتراکھنڈ کا گراں قدر وقت برباد کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ”دس برسوں تک گھپلے ہوئے، ملک میں بنیادی ڈھانچے کے نام پر گھپلے ہوئے۔ ہم نے ملک کو ہوئے نقصان کی بھرپائی کے لئے دوہری محنت سے کام کیا اور آج بھی کررہے ہیں۔“ کام کرنے کے طریقے میں تبدیلی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ”آج بھارت جدید بنیادی ڈھانچے پر 100 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کے ارادے سے آگے بڑھ رہا ہے۔ بھارت کی پالیسی ’گتی شکتی‘ یعنی دوہری اور تہری رفتار کے ساتھ کام کرنے کی ہے۔“
کنیکٹیوٹی کے فوائد کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ 2012 میں کیدار ناتھ المیہ سے قبل 5 لاکھ 70 ہزار افراد نے درشن کیا تھا۔ اس وقت یہ ایک ریکارڈ تھا، جبکہ 2019 میں کورونا کے ا?غاز سے قبل دس لاکھ سے زیادہ افراد کیدار ناتھ کے درشن کے لئے آتے تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ کیدار ناتھ دھام کی تعمیر نو سے درشن کے لئے آنے والے لوگوں کی نہ صرف تعداد بڑھی ہے بلکہ یہاں کے لوگوں کو روزگار اور اپنا روزگار آپ کرنے کے متعدد مواقع بھی دستیاب ہوئے ہیں۔
وزیر اعظم نے دہلی – دہرادون اقتصادی گلیارے کا سنگ بنیاد رکھے جانے پر خوشی کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ جب یہ بن کر تیار ہوجائے گا تو دہلی سے دہرادون کے سفر میں لگنے والا وقت کم ہوکر تقریباً آدھا رہ جائے گا۔ ہمارے پہاڑ نہ صرف عقیدے اور ہماری ثقافت کی مضبوط بنیادیں ہیں بلکہ وہ ہمارے ملک کی سلامتی کے قلعے بھی ہیں۔ ملک کی چوٹی کی ترجیحات میں سے ایک ترجیح پہاڑوں میں رہنے والے لوگوں کی زندگی کو نسبتاً زیادہ ا?سان بنانا بھی ہے۔ بدقسمتی سے وہ لوگ جو دہائیوں تک حکومت میں رہے، یہ خیال ان کی پالیسی سے متعلق سوچ میں کہیں نہیں رہا۔ترقی کی رفتار کا موازنہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ 2007 اور 2014 کے درمیان، سات برسوں میں مرکزی حکومت نے اتراکھنڈ میں محض 288 کلومیٹر قومی شاہراہیں بنائیں جبکہ موجودہ حکومت نے اپنے سات برسوں میں اتراکھنڈ میں 2 ہزار کلومیٹر سے زیادہ قومی شاہراہیں بنوائی ہیں۔
وزیر اعظم نے سابقہ حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سرحدی پہاڑی علاقوں میں بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر کے سلسلے میں اتنی سنجیدگی کے ساتھ کام نہیں کرتی تھیں جتنی سنجیدگی سے انھیں کرنا چاہئے تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ سرحد کے قریب سڑکیں بنائی جانی چاہیے، پل بنائے جانے چاہئے، لیکن انھوں نے اس جانب توجہ نہیں دی۔ مودی نے کہا کہ ’وَن رینک ون نیشن‘، جدید ہتھیار، دہشت گردوں کو معقول جواب دینا جیسے اہم امور پر خصوصی توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے ہر سطح پر فوج کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ ”آج جو حکومت ہے وہ دنیا کے کسی بھی ملک کے دباؤ میں نہیں آتی۔ ہم وہ لوگ ہیں جو ’نیشن فرسٹ، آل ویز فرسٹ‘ کے اصول پر عمل کرتے ہیں۔“
وزیر اعظم نے صرف ایک ذات، مذہب کی ناز برداری کرنے اور ترقیاتی پالیسیوں میں تفریق کرنے کی سیاست کو ہدف تنقید بنایا۔ انھوں نے سیاست کی بے راہ روی پر بھی حملہ کیا، جو لوگوں کو مضبوط نہیں بننے دیتی اور انھیں اپنی ضرورتوں کی حکومت کا محتاج بنادیتی ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنی حکومت کی سوچ پر بھی روشنی ڈالی جس نے ایک مختلف راستہ اختیار کیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک مشکل راہ ہے، مشکل ہے لیکن یہ ملک کے مفاد میں ہے۔ ملک کے لوگوں کے مفاد میں ہے۔ یہ راستہ ہے سب کا ساتھ، سب کا وکاس۔ ہم نے کہا ہے کہ ہم جو بھی اسکیم لے کر آئیں گے بغیر کسی تفریق کے سب کے لیے لے کر آئیں گے۔ ہم نے ووٹ بینک کی سیاست کو بنیاد نہیں بنایا، بلکہ ملک کے عوام کی خدمت کو ترجیح دی۔ ہمارا نقطہ نظر ملک کو مضبوط کرنے کا رہا ہے۔وزیر اعظم نے اپنی تقریر کا اختتام اس یقین دہانی کے ساتھ کیا کہ امرت کال کے وقت کے دوران ملک نے ترقی کی جو رفتار پکڑی ہے وہ نہ رکے گی، نہ سست پڑے گی بلکہ ہم اسے زیادہ یقین اور عزم کے ساتھ مزید تیز کریں گے۔