73ویں یوم جمہوریہ کے موقع پرصدرجمہوریہ ہند رام ناتھ کووند نے قوم کو خطاب کیا۔ قوم کے نام اپنے خطاب میں رام ناتھ کووند نے ملک اور بیرون ملک سب کو دلی مبارک باد پیش کی۔ رام ناتھ کووند نے کہا کہ یوم جمہوریہ کا دن ان عظیم ہستیوں کو یاد کرنے کا موقع بھی ہے جنہوں نے سوراج کے خواب کو تعبیر کرنے کے لئے بے مثال قربانیاں پیش کیں اور اس کے لئے ملک کے شہریوں میں جدوجہد کرنے کا عزم جگایا۔ انہوں نے کہا کہ حقوق اور عمل ایک ہی سکے کے دوپہلوہیں۔انہوں نے کہاکہ یہ جشن منانے کا ایک موقع ہے جو ہم سب کے لئے مشترک ہے۔ یعنی ہماری ہندوستانیت۔ سنہ 1950 میں یہ آج ہی کا دن تھا جب ہم سب کے اس مقدس جوہر نے ایک باقاعدہ شکل اختیار کی تھی۔ اسی دن ہندوستان سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر قائم ہوا تھا اور ’ہم عوام‘ نے ایک ایسے ا?ئین کو نافذ کیا جو ہمارے اجتماعی ویژن کا ایک الہامی دستاویز ہے۔ ہماری جمہوریت کی یکجہتی اور تنوع کی دنیا بھر میں ستائش کی جاتی ہے۔ یہ اسی اتحاد اور ایک قوم ہونے کا جذبہ ہے جسے ہم ہر سال یوم جمہوریہ کے طور پر مناتے ہیں۔ اس سال کی تقریبات جاری وبا کے باعث کچھ کم ہوسکتی ہیں لیکن ہمارا جذبہ ہمیشہ کی طرح انتہائی مستحکم ہے۔
ہم بے انتہا خوش قسمت ہیں کہ اس قانون ساز اسمبلی میں جس نے دستاویز تیار کی تھی، اس میں اس دور کے نسل کے بہترین ذہن شامل تھے۔ وہ ہماری عظیم آزادی کی جدوجہد کے سرکردہ روشن چراغ تھے۔ طویل برسوں کے بعد ہندستان کی روح دوبارہ بیدار ہورہی تھی اور یہ غیر معمولی مرد و خواتین ایک نئی صبح کے محور تھے۔ انہوں نے عوام کی جانب سے ہر ایک مضمون، ہر ایک جملے اور یہاں تک کہ ہر ایک لفظ پر بحث کی۔ یہ سلسلہ تقریباً تین سال تک جاری رہا۔ اور آخر کار یہ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر ہی تھے، جنہوں نے مسودہ سازی کمیٹی کے صدر نشیں کے طور پر، حتمی خاکہ تیار کیا, جو ہمارا بانی دستاویز بن گیا ہے۔ایک جانب آئین کا متن، جو ریاست کے کام کی تفصیلات سے متعلق ہے، کافی طویل ہے، البتہ اس کی تمہید اس کے رہنما اصولوں یعنی جمہوریت، انصاف، آزادی، مساوات اور بھائی چارہ کا خلاصہ کرتی ہے۔ وہ ایسی بنیاد وضع کرتے ہیں جن پر ہماری جمہوریت قائم ہے۔ یہ وہ اقدار ہیں جو ہماری اجتماعی وراثت کی تشکیل کرتی ہیں۔
ان اقدار کو، ہمارے آئین میں شہریوں کے بنیادی حقوق اور بنیادی فرائض کی شکل میں فوقیت دی گئی ہے۔ حقوق و فرائض، دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ شہریوں کی جانب سے آئین میں بنیادی فرائض کی پابندی، بنیادی حقوق سے لطف اندوز ہونے کیلئے سازگار ماحول پیدا کرتی ہے۔ اسی لئے جب ایسا کرنے کے لئے کہا گیا، قومی خدمت انجام دینے کے بنیادی فرض کو پورا کرتے ہوئے، ملک کے کروڑوں لوگوں نے سوچھ بھارت ابھیان اور کووڈ سے بچاؤ کی ٹیکہ کاری کی مہم کو عوامی تحریکوں میں بدل دیا ہے۔ اس طرح کی مہمات کی کامیابی کا اصل سہرہ ہمارے فرض شناس شہریوں کو جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے عوام قومی مفاد کی مہمات کو اپنی فعال شراکت سے تقویت دیں گے اور اسی طرح کے جذبے کا اظہار کریں گے۔ہندستان کاآئین 26 نومبر 1949 کو قانون ساز اسمبلی کے ذریعہ منظور اور نافذ کیا گیا تھا جسے اب ہم ’یوم ا?ئین‘ کے طور پر مناتے ہیں۔ البتہ اسے دو ماہ بعد نافذ کیا گیا تھا۔ یہ 1930 میں اس دن کے موقع پر کیا گیا تھا جب ہندوستان نے مکمل آزادی حاصل کرنے کا عزم کیا تھا۔ 1930 سے 1947 تک، ہر سال 26 جنوری کو ’پورن سوراج ڈے‘ کیطور پر منایا جاتا تھا اور یہ وہی دن تھا جس کا انتخاب ا?ئین کا نفاذ کرنے کے لئے کیا گیا تھا۔ 1930 میں ایک تحریر میں مہاتما گاندھی نے عزیز ہم وطنوں کو مشورہ دیا تھا کہ ’پورن سوراج ڈے‘کو کیسے منایا جاناچاہئے۔ انہوں نے کہا تھا اور میں اسے یہاں نقل کرتا ہوں:
”یاد رکھیئے کیونکہ ہم اپنی منزل عدم تشدد اور سچے طور طریقوں سے حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو ایسا ہم صرف تزکیہ نفس کے ذریعہ ہی کرسکتے ہیں۔ اس لئے ہمیں اس دن کو ایسے تعمیری کام کرنے کے لئے وقف کرنا چاہئیجو کہ ہمارے اختیار میں ہے“۔یہ کہنے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ، گاندھی جی کا مشورہ زندہ جاوید ہے۔ یقیناً وہ یہ چاہتے ہوں گے کہ ہم یوم جمہوریہ بھی اسی انداز میں منائیں۔ وہ چاہتے تھے کہ ہماپنے نفس میں جھانکیں، اپنی ذات کا جائزہ لیں اورایک بہتر ہندوستاناور ایک بہتر دنیا کی تشکیل میں اپنی حصہ رسدی کریں۔
عزیز ہم وطنو!
دنیا کومدد کی اتنی کبھی ضرورت نہیں پڑی جتنی کہ اس وقت ہے۔ دو برس سے زیادہ کی مدت گذر چکی ہیاور انسانیت ابھی تک کورونا وائرس سے نبردآزما ہے۔ لاکھوں جانیں تلف ہوچکی ہیں اور عالمی معیشت اس وبا کے اثرات سے دوچار ہے۔ دنیا کو بے مثال مصائب کا سامنا ہے اور نئے قسموں کے اضافوں کے بعد یہ نئینئے بحرانوں کو جنم دے رہا ہے۔
وبائی امراض کے متعلق انتظام،ہندوستان میں سب سے زیادہ مشکل رہا۔ ہمارے یہاں آبادی کی بڑی تعداد ہے اور ایک ترقی پذیر معیشت کے طور پر ہمارے پاس اس نادیدہ دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے ضروری درکار وسائل اور بنیادی ڈھانچے کے پورے وسائل نہیں تھے لیکن یہ ایسے مشکل وقت میں ہی ہوتا ہے جب کسی قوم کی لچک چمک مارتی ہے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے بہت فخر ہے کہ ہم نے کورونا وائرس کے خلاف بے مثال عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔ پہلے سال میں ہی ہم نے نہ صرف صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچے کو وسعت دی بلکہ دوسروں کی مدد کے لئے بھی آگے بڑھے۔ دوسرے سال تک ہم نے کووڈ سے بچاؤ کا دیسی ٹیکہ تیار کرلیا تھا اور دنیا کی تاریخ میں ٹیکہ کاری کی اب تک کی سب سے بڑی مہم کا ا?غاز کیا تھا۔ ہمارے ملک میں کووڈ سے بچاؤ کی ٹیکہ کاری کی مہم تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے۔ وبا کے دوران ہم نے ویکسن اور دیگر طبی امداد کے ساتھ دوسرے ملکوں تک رسائی بھی کی ہے۔ ہندوستان کے اس تعاون کو بین الاقوامی تنظیموں نے سراہا ہے۔
بدقسمتی سے کچھ ناکامیوں کا سامنا بھی ہوا ہے کیونکہ یہ وائرس نئے تغیرات کیساتھ واپسی کرتا ہے۔ بے شمارخاندان ایک مشکل وقت سے دوچار ہوچکے ہیں۔ ہمارے اجتماعی صدمے کو بیان کرنے کے لئے الفاظ نہیں ہیں۔ سب سے بہتر عمل یہ ہے کہ بہت سے جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔ چونکہ یہ وبائی بیماری ابھی بھی پھیلی ہوئی اس لئے ہمیں چوکنا رہنا چاہئے اور اپنی حفاظت میں کوئی کمی ہونے نہیں دینی چاہئے۔ جو احتیاطی تدابیر ہم نے اب تک اختیار کی ہیں انہیں جاری رکھنا ہوگا۔ ماسک پہننا اور سماجی دوری کو برقرار رکھنا، کووڈ سے متعلق ضابطوں کے لازمی جزو رہے ہیں۔ کووڈ وبا کے خلاف جنگ میں اب یہ ہر شہری کا قومی فریضہ بن گیا ہے کہ وہ ہمارے سائنس دانوں اور تمام ماہرین کی تجویز کردہ احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہوں۔ یہ فرض ہمیں اس وقت تک نبھانا ہے جب تک اس بحران پر ہم قابو نہ پالیں۔ ہم جدوجہد جاری رکھیں گے اوراسی لگن کا مظاہرہ کریں گے۔
بحران کے اس دور نے ہمیں اس اعزاز سے بھی نواز ہے کہ کس طرح ہم تمام ہندوستانی ایک خاندان کے طور پر ایک دوسرے سیوابستہ ہیں۔ سماجی دوری کے اس دور نے ہمیں ایک دوسرے کے بہت قریب کردیا ہے۔ ہمیں یہ احساس ہوا ہے کہ ہم ایک دوسرے پر کس قدر انحصار کرتیہیں۔ ڈاکٹروں، نرسوں اور طبی عملے میں اس چیلنج کا سامنا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر بھی مشکل حالات میں مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے طویل گھنٹوں تک کام کر رہے ہیں۔ دیگر لوگوں نے قوم کو متحرک رکھا ہے، فراہمی کے سلسلہ اور ضروریات و خدمات کا انتظام کیا ہے۔ قیادت، پالیسی سازوں، منتظمین اور دیگر متعلقہ لوگوں نے، مرکزی اور ریاستی سطح پر بروقت مداخلت کی ہے۔ اس طرح کی مداخلتوں کے باعث ہماری معیشت دوبارہ آگے بڑھ رہی ہے۔ مصیبت کی اس گھڑی میں ہندوستان کے جذبے کا یہ جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ گزشتہ برس سخت دور سے گذرنے کے بعد اس مالی برس میں ہماری معیشت متاثر کن شرح سے ترقی پذیر ہوگی۔ یہ گزشتہ برس شروع کئے گئے ا?تم نربھر بھارت ابھیان کی کامیابی کو نمایاں کرتا ہے۔ حکومت نے معیشت کے ہر شعبے میں اصلاحات پر وسیع تر توجہ کا مظاہرہ کیا ہے اور جہاں بھی ضرورت پڑی مدد فراہم کی ہے۔ زراعت اور مال کی تیاری کے شعبوں میں بہتری کی وجہ سے متاثر کن معاشی کارکردگی ممکن ہوئی ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہورہی ہے کہ ہمارے کسان، خاص طور پر نوجوان کاشتکار جن کے پاس چھوٹے چھوٹے قطع اراضی ہیں، وہ پورے جوش و خروش کے ساتھ قدرتی کاشت کاری کو اپنا رہے ہیں۔چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں نیعوام کو روزگار فراہم کرنے اور معیشت کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے اختراعی نوجوان کاروباریوں نے اسٹارٹ اپ حیاتیاتی نظام کا موثر استعمال کرکے، کامیابی کے نئیمعیارات قائم کئے ہیں۔ ہماریملک کیوسیع اور مستحکم ڈیجیٹل ادائیگی کے پلیٹ فارم کیکامیابی کا یہ جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ ہرمہینے لاکھوں ڈیجیٹل لین دین ہورہے ہیں۔آبادیاتی فائدہ حاصل کرنیکے لئے، حکومت نے قومی تعلیمی پالیسی کے ساتھ درست ماحول وضع کیا ہے جو روایتی اقدار اور جدید مہارتوں کابہترین امتزاج بناتا ہے۔ یہ ذکر کرناانتہائی خوش ا?ئند ہے کہ ہندوستان نے سرفہرست 50 اختراعی معیشتوں میں اپنا مقام بنایا ہے۔ یہ بات سب سے زیادہ اطمینان بخش ہے کہ ہم میرٹ کو فروغ دینے میں کامیاب رہے ہیں اورہمہ جہت شمولیت پر بھی زور دیتیہیں۔
خواتین و حضرات،
پچھلے سال ہمارے کھلاڑیوں نے بھی ملک کو خوشیاں دی ہیں، جب انہوں نیاولمپکس میں اپنی شناخت بنائی۔ ان نوجوان چیمپئنوں کی خود اعتمادی ا?ج لاکھوں لوگوں کوترغیب دیدہی ہے۔ حالیہ مہینوں میں, میں نے اپنے عوام کو مختلف شعبوں میں اپنے عزم اور عمل کے ذریعہ، ملک اور معاشرے کو مضبوط کرنے کی قابل ذکرمثالیں دیکھی ہیں۔ البتہ میں ایسی صرف دو ہی مثالوں کا ذکر کروں گا۔ ہندستانی بحریہ اور کوچن شپ یارڈ لمیٹیڈ کی باعزم ٹیموں نے ایک جدید ترین طیارہ بردار بحری جہاز ا?ئی اے سی وکرانت مکمل طور پر ملک میں تیار کیا ہے جسے ہماری بحریہ میں شامل کیا جائے گا۔ اس طرح کی جدید فوجی مہارتوں اور صلاحیتوں کی وجہ سے، ہندوستان کا شمار اب دنیا کی صف اول کی بحری طاقتوں میں ہوتا ہے۔ دفاع کے شعبے میں خود انحصاری حاصل کرنے کے تئیں یہ ایک شاندار مثال ہے۔ اس کے علاوہ ایک خاص تجربہ میرے دل کو بہت زیادہ متاثر کرنے والا لگا۔ ہریانہ کے بھیوانی ضلع میں سوئی نام کے گاؤں میں، اس گاؤں سے تعلق رکھنے والے کچھ روشن خیال باشندوں نے حساسیت اور تندہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’سوا پریت آدرش گرام یوجنا‘، کے تحت گاؤں کو تبدیل کردیا ہے۔ اپنے گاؤں یا آبائی سرزمین سے محبت اور اظہار تشکر کی بے مثال یہ قابل تقلید ہے۔ شکر گذار لوگوں کے دلوں میں اپنی آبائی سرزمین کے لئے، زندگی بھر محبت اور عقیدت باقی رہتی ہے۔ یہ مثال میرے اس یقین کو مضبوط کرتی ہیکہ ایک نیا ہندوستان ابھر کر سامنے آرہا ہے- ایک مستحکم ہندوستان اور ا یک حساس ہندستان؛ سکشت بھارت،سمویدن شیل بھارت۔ مجھے یقین ہے کہ اس مثال سے تحریک حاصل کرکے وسائل والے دوسریلوگ بھی اپنے گاوؤں اور شہروں کی ترقیات میں اپنی حصہ رسدی کریں گے۔
اسی تناظر میں، میں ا?پ سب کے ساتھ اپنا ایک ذاتی تجربہ ساجھا کرنا چاہوں گا۔ یہ گزشتہ سال جون کے مہینے میں، اپنی جائے پیدائش یعنی کانپور دیہات ضلع میں واقع اپنے گاؤں پارونکھ جانے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ وہاں پہنچ کر مجھے قدرتی طو ر پر اپنے گاؤں کی مقدس مٹی کے لئے احترام کا اظہار کرنے کی خواہش ظاہر ہوئی اور میں نے اسے اپنے ماتھے پر لگایا کیونکہ میرا اعتقاد ہیکہ میں اپنیگاؤں کے آشیرواد کی وجہ سے ہی راشٹرپتی بھون تک پہنچ سکا ہوں۔ میں دنیا میں کہیں بھی ہوں، میرا گاؤں اور میرا ملک میرے دل میں بستے ہیں۔ میں ہندوستان کے ان لوگوں سے درخواست کرتا ہوں جو اپنی محنت اور قابلیت کی وجہ سے زندگی میں کامیابی حاصل کرتیہیں کہ وہ اپنی اصل جڑوں، اپنے گاؤں، قصبہ یا شہر کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ علاوہ ازیں ا?پ سب کو اپنی جائیپیدائش اور اپنیملک کی ہر طرح سے خدمات کرنی چاہئے۔ اگر ہندوستان کے تمام کامیاب لوگ اپنی جائے پیدائش کی ترقی کے لئے خلوص نیت سے کام کریں گے تو اس طرح کی مقامی ترقی کے نتائج سے یقیناً پورا ملک مستفید ہوگا۔
پیارے ہم وطنو!
آج یہ ہمارے فوج اور سیکورٹی اہلکار ہی ہیں جو قومی فخر کی میراث کوآگے لیجارہے ہیں۔ ناقابل برداشت ٹھنڈ اور صحرا کی شدید ترین گرمی میں بھی، اپنے اہل و اعیال سے کوسوں دور، مادر وطن کی حفاظت کرتیہیں۔ یہ ہماری سرحدوں کی حفاظت کرنے والی مسلح افواج کی مسلسل چابک دستی او ر چوکسی ہی ملک کے اندر داخلی سلامتی کو برقرار رکھنے والے پولیس کے اہلکاروں کی بدولت ہے کہ ان کے ساتھی شہری پرامن زندگی سے پوری طرح سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ جب کوئی بہادر سپاہی فرائض کی ادائیگی کے دوان جاں بحق ہوتا ہے تو پورا ملک غم زدہ ہوجاتا ہے۔ پچھلے مہینے ہی، ایک اندونہاک حادثہ میں، ہم نے ملک کے بہادر کمانڈروں میں سے ایک -جنرل بپن راوت- انکی اہلیہ اور بہت سے بہادر سپاہیوں کو کھودیا۔اس المناک اور اندوہناک نقصان پر پورا ملک غمزدہ ہے۔
خواتین و حضرات!
حب الوطنی شہریوں میں فرض کے احساس کو مستحکم کرتی ہے۔ چاہے آپ ڈاکٹر ہوں یا وکیل،دکاندار ہو ں یا دفتری ملازم،صفائی ستھرائی کے ملازم ہوں یا مزدور، اپنی ڈیوٹی کو بخوبی اور احسن طریقے سے انجام دینا ہی ا?پ کا قوم کے لئے سب سے اول اور اہم ترین حصہ رسدی ہے۔مسلح افواج کے اعلی ترین کمانڈر کے طور پر، مجھ یہ کہتے ہوئے مسرت ہورہی ہے کہ یہ سال مسلح افواج میں خواتین کو بااختیار بنانے کا سال رہا ہے۔ ہماری بیٹیوں نے کانچ کی اس حد کو توڑ دیا ہے اب نئے شعبوں میں خواتین افسران کو، مستقل کمیشن حاصل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ سینک اسکولوں او ر باوقار قومی اکیڈمی کے ذریعہ آنے والی خواتین کے ساتھ ہی افواج کی ٹیلنٹ کی پائپ لائن کو تقویت حاصل ہوگی۔ اس کے نتیجے میں ہماری مسلح افواج بہترین صنفی توازن سے مستفید ہوں گی۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے، آج ہندوستان بہتر مقام پر ہے۔ 21ویں صدی آب و ہوا کی تبدیلی کا دور بن رہی ہے اور ہندوستان نے راہ دکھانے میں عالمی سطح پر قاعدانہ مقام حاصل کیا ہے؛ خاص طور پر قابل تجدید توانائی کے لئے اپنی جرت مندانہ اور پرجوش کوشش کے ساتھ، انفرادی سطح پر ہم میں سے ہرایک گاندھی جی کے مشورے کو یاد کرسکتا ہے اور اپنی ارد گرد کی دنیا کو اور بہتر بنانے میں مدد کرسکتا ہے۔ ہندوستان نے ہمیشہ پوری دنیا کو ایک خاندان سمجھا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس عالمی بھائی چارہ کے جذبے سے متاثر ہوکر، ہمارا ملک اور پوری عالمی برادری، مزید مساوی اور خوشحال مستقبل کی طرف گامزن ہوگی۔