نئی دہلی: افغانستان(Afghanistan) میں طالبان(Taliban) کے آنے اور وہاں سے امریکی فوجیوں(US Troops) کے جانے کا اثر جموں وکشمیر(Jammu Kashmir) تک نظر آرہا ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ کم از کم دہشت گردوں کے 6 گروپوں نے بڑے ہدف کودھیان میں رکھتے ہوئے جموں وکشمیر میں دراندازی کی ہے۔ اب مختلف ایجنسیوں کے ان پُٹ کو ملٹی ایجنسی سینٹر کی طرف سے ملایا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق، اس طرح کے اشارے ملے ہیں کہ کم از کم 25 سے 30 دہشت گرد وادی میں گزشتہ ماہ سے سرگرم ہیں۔ یہ تعداد ان مبینہ دہشت گردوں سے الگ ہے، جو پہلے سے ہی جموں وکشمیر میں موجود ہیں۔ زمینی سطح کے ثبوت پر دھیان دیں تو پتہ چلتا ہے کہ جموں وکشمیر میں گزشتہ ایک ماہ میں تشدد کے حادثات میں اچانک اضافہ ہوا ہے۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، ایک سینئر افسر کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ تقریباً ہر ایک دن جموں وکشمیر میں یا جو سیکورٹی اہلکاروں پر آئی ای ڈی حملہ ہوا یا پھر سیاسی لوگوں پر حملے ہوئے۔ ان کے مطابق، ان لانچ پیڈ میں بھی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں اضافہ ہوا، جن میں فروری میں ہوئے سیز فائر کے بعد سے سرگرمیاں نہیں تھیں۔ ان مقامات پر بڑے سطح پر سرگرمیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق، کنٹرول لائن کے پاس واقع ان لانچ پیڈ میں کم از کم 300 دہشت گرد موجود ہیں۔ افسران کا کہنا ہے کہ اسے لے کر سیکورٹی اہلکار پوری طرح مستعد ہیں۔ ان کے مطابق، کابل پرطالبان کے قبضے کے بعد سوشل میڈیا پر مبارکباد دینے والے پیغام پوسٹ کئے جا رہے ہیں۔
حال ہی میں وائرل ہوئے ایک ویڈیو کی جموں وکشمیر میں خوب بحث ہے۔ اس ویڈیو میں طالبان کے ساتھ لڑنے کے لئے افغانستان گئے کچھ جنگجو پاکستان مقبوضہ کشمیر واپس آگئے ہیں۔ ویڈیو سے پتہ چلتا ہے کہ پاک مقبوضہ کشمیر (پی او کے) میں ان کا ہیرو جیسا استقبال ہوا۔ ان کے مطابق، وہ مستقل طور پر سوشل میڈیا دیکھ رہے ہیں تاکہ ایسے ویڈیو اور مل سکیں۔ یہ ویڈیو کلپ کشمیر میں بھی نوجوانوں کو ترغیب دیتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی گزشتہ کچھ ماہ میں جموں وکشمیرمیں کم از کم 60 نوجوان اپنے گھروں سے لاپتہ ہوگئے ہیں۔ اسے لے کر جموں وکشمیر پولیس اور سیکورٹی اہلکار کافی فکر مند ہیں۔ کشمیر کے اعلیٰ پولیس افسر وجے کمار کا کہنا ہے کہ یہ سبھی لوگ یہاں کسی سے ملنے یا کچھ کام کرنے کی بات کہہ کر گھر سے گئے تھے، لیکن بعد میں وہ لاپتہ ہوگئے۔ یہ فکرمندی اور تشویش کا موضوع ہے۔