<h3 style="text-align: center;">عشق رسول کے نام پر انتہا پسندی کی اجازت کون دیتا ہے؟</h3>
<p style="text-align: right;">
عشق رسول اور اہانت رسول کے نام پر کسی کا سر قلم کرنے کی اپیل کرنا اب فیشن بن گیا ہے۔ تازہ واقعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ لیڈر فرحان زبیری کا ہے۔ فرحان زبیری کا ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے۔جس میں وہ صاف صاف کہتا ہے کہ رسول کی شان میں گستاخی کرنے والے کا سر قلم کر دینا چاہئے۔ فرحان زبیری اکیلا نہیں ہے۔ ہمارے ملک ہندوستان میں اس کے حامی اور مدد گار بہت ہیں۔ اس کی سوچ سے اتفاق رکھنے والے بہت ہیں۔ یقین مانئے فرحان زبیری کی سوچ اس ملک کے مسلمانوں کو مزید ہلاکت کی طرف لے جائے گی۔ نوجوانوں کو اگر اس زہریلی سوچ سے نہیں بچایا گیا تو ہمارا ملک ہندوستان شرمسار ہوگا۔ اس ملک کی صدیوں پرانی اتحاد اور یکجہتی کی روایات شرمسار ہوں گی۔ اور اس کے ذمہ دار صرف فرحان زبیری اور اس جیسے نفرت کے سوداگر ہی نہیں ہوں گے بلکہ اس ملک کے وہ تمام ذمہ دار مسلمان علمائے کرام اور دانشوران بھی ذمہ دار ہوں گے جو ان معاملات پہ چپ رہیں گے۔
فرحان زبیری کی اس خطرناک سوچ پر لگام لگانے کی ضرورت ہے۔ حکومت سخت ترین قوانین کے تحت ایسے نوجوانوں کو گرفتار کرے۔اور ملک کے باشعور افراد اس سوچ کی پرزور مذمت کریں۔ کوئی اگر مگر نہیں ہونی چاہئے۔ صاف صاف لفظوں میں کہنا ہوگا کہ فرحان زبیری جیسی سوچ رکھنے والے نوجوان اس ملک کی فضا کو خراب کرنے والے ہیں۔
اتر پردیش کے میرٹھ کے رہنے والے سیاست داں حاجی یعقوب قریشی نے چند سال پہلے اسی طرح سر قلم کرنے والے کو پچاس کروڑ روپے دینے کی بات کی تھی۔ اگر حاجی یعقوب قریشی پر اقدام قتل (اٹیمپٹ ٹو مرڈر) کا مقدمہ چلایا گیا ہوتا اور سخت سزا دی گئی ہوتی تو آج شاید فرحان زبیری یہ جرأت نہ کرتا۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے عناصر کو نشان زد کیا جائے اور حکومت کی جانب سے بھی اور مسلمان رہنماؤں کی جانب سے بھی سخت ترین الفاظ میں ان کی سوچ کی مذمت کی جائے۔ ان کے ان زہریلے خیالات کو پھولنے پھلنے کا اگر موقعہ فراہم کیا گیا تو یہ ہندوستانی مسلمانوں کا زبردست نقصان ہوگا۔ ہندوستان کے مسلم نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ مولانا وحید الدین خاں کی تحریروں کا مطالعہ کریں۔ وہ دہلی کی فتح پوری جامعہ مسجد کے امام ڈاکٹر مفتی محمد مکرم احمدجیسے عالم دین کی باتوں کو سنیں۔ وہ آل انڈیا امام آرگنائزیشن کے صدر امام عمیر الیاسی کی باتوں کو بغور سنیں۔ ہمارا ملک ہندوستان صدیوں صدیوں سے امن کا گہوارہ رہا ہے۔ یہ سنتوں اور صوفیوں کی دھرتی ہے۔ یہاں تشدد کی بات کرنا اور تشدد کو بڑھاوا دینا کسی صورت جائز نہیں ہے۔ اس کو کسی صورت، کسی نام پر گوارا نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس ملک کے مسلم دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر ان خطرناک منصوبوں پر پانی پھیرنے کا کام کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ سوچتے رہ جائیں اور بہت دیر ہو جائے۔ یہ فرحان زبیری جیسی سوچ والے زہریلے ناگ اپنی سوچ کا زہر مسلم نوجوانوں میں منتقل کرتے رہیں اور پھر ہم آپ سب خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوں۔</p>.