Urdu News

ایک شاندرا غزل گو اور بہترین نغمہ نگار:شکیلؔ بدایونی

ایک شاندرا غزل گو اور بہترین نغمہ نگار شکیلؔ بدایونی

اعجاز زیڈ ایچ

نام شکیل احمد،تخلص شکیلؔ اور تاریخی نام عبدالغفار احمد۔ 3؍اگست 1916 کو بدایوں میں پیدا ہوئے۔ ولد جمیل احمد سوختہ قادری بدایونی، ابتدائی تعلیم اردو، فارسی اور عربی کی ہوئی۔ 1936 میں میٹرک مشن ہائی اسکول ، شیخوپورہ (بدایوں) سے کیا۔ 1942 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے بی اے کا امتحان پاس کیا۔

 اس کے بعد مرکزی حکومت ہند کے محکمۂ سپلائی میں کلرک بھرتی ہوگئے۔ وہ دلی میں 1946 تک رہے۔ فروری 1946 میں شکیل ایک مشاعرے کے سلسلے میں بمبئی گئے۔ مشہور فلم ساز کاردار کے ایما پر مستقل طور پر بمبئی میں سکونت اختیار کرلی۔ شکیل نے سو سے زیادہ فلموں کے اردو ، ہندی اور پوربی زبانوں میں گیت لکھے ۔

 انھوں نے گیتوں سے بہت روپیہ کمایا۔ شکیل کو ذیابطیس کی موروثی شکایت تھی۔ وہ 20؍اپریل 1970 کو بمبئی میں انتقال کرگئے۔ وہ ضیاءالقادری سے مشورۂ سخن کرتے تھے۔ ان کی زندگی میں ان کے ادبی خدمات کے اعتراف میں غالب صدی تقریبات کے سلسلے میں گورنر یوپی (شری گوپال ریڈی) نے ان کے وطن بدایوں میں شکیلؔ روڈ کا افتتاح کیا۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں۔۔۔

 ’’رعنائیاں‘‘، ’’صنم وحرم‘‘، ’’رنگینیاں‘‘، ’’شبستاں‘‘ اور ’’نغمۂ فردوس‘‘ (نعتیہ کلام)۔

بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:73

معروف نغمہ نگار، شاعرشکیلؔ بدایونی صاحب کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت۔۔۔

میں نظر سے پی رہا تھا تو یہ دل نے بد دعا دی

ترا  ہاتھ  زندگی  بھر  کبھی  جام     تک  نہ  پہنچے

—–

وہی کارواں، وہی راستے، وہی زندگی، وہی مرحلے

مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں، کبھی ہم نہیں

—–

کوئی اے شکیلؔ پوچھے یہ جنوں نہیں تو کیا ہے

کہ  اسی  کے  ہو  گئے  ہم  جو نہ ہو سکا  ہمارا

—–

پیہم تلاش دوست میں کرتا چلا گیا

کونین کی حدوں سے گزرتا چلا گیا

—–

تری  انجمن میں ظالم  عجب اہتمام دیکھا

کہیں زندگی کی بارش کہیں قتل عام دیکھا

—–

زندگی آ تجھے قاتل کے حوالے کر دوں

مجھ سے اب خونِ تمنا نہیں دیکھا جاتا

—–

شعر و ادب کی راہ میں ہے گامزن شکیلؔ

اپنے   مخالفین    کی    پروا   کیے    بغیر

—–

بیگانہ  ہو کے بزمِ جہاں  دیکھتا ہوں میں

دنیا کے رنگ و بو کا سماں دیکھتا ہوں میں

—–

جام گردش میں ہے دربند ہیں مے خانوں کے

کچھ فرشتے ہیں یہاں روپ میں انسانوں کے

—–

ترکِ  الفت  کو  زمانہ  ہو  گیا   لیکن   شکیلؔ

آج پھر میرا اور ان کا سامنا ہونے کو ہے

—–

جی چاہتا ہے آگ لگا دوں نقاب میں

جلووں سے انتقام نظر چاہتا ہوں میں

—–

تہمیدِ ستم اور ہے  تکمیلِ جفا اور

چکھنے کا مزا اور ہے پینے کا مزا اور

—–

ظاہر یہ کر رہی ہیں شب غم کی نزہتیں

کوئی چھپا ہوا  مری تنہائیوں میں ہے

—–

کب تک شکیلؔ دل کو دعا کیجئے گا آپ

بہتر یہی ہے ان کو بھلا دیجئے گا آپ

—–

اس کثرتِ غم پر بھی مجھے حسرتِ غم ہے

جو بھر کے چھلک جائے وہ پیمانہ نہیں ہوں

—–

اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے

بے حس بنا چکی ہے بہت زندگی مجھے

—–

اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل

ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے

—–

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا

جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا

—–

پھر وہی جہد مسلسل پھر وہی فکرِ معاش

منزلِ جاناں سے کوئی کامیاب آیا تو کیا

—–

خوش ہوں کہ مرا حسن طلب کام تو آیا

خالی ہی سہی میری طرف جام تو آیا

—–

ذرا نقاب حسیں رخ سے تم الٹ دینا

ہم اپنے دیدہ و دل کا غرور دیکھیں گے

—–

پھولوں کو راس آیا نہ جب عرصہ بہار

گلشن سے ہٹ کے گوشئہ داماں میں آ گئے

—–

صدق و صفائے قلب سے محروم ہے حیات

کرتے ہیں بندگی بھی جہنم کے ڈر سے ہم

—–

اے شکیلؔ روح پرور تری بے خودی کے نغمے

مگر آج تک نہ ہم نے ترے لب پہ جام دیکھا

Recommended