Urdu News

بابائے قوم کے لیے مرقوم

آفتاب سکندر

آفتاب سکندر

ہندوؤں کے بنائے گئے پاکستان کے بانی علی جناح کی آج برسی ہے۔ جی آپ نے صحیح سنا بلکہ پڑھا یہ میری نہیں فرزندِ مفکر پاکستان کی رائے ہے۔

 بہرکیف! میرے نزدیک ہندوؤں کی بجائے یہ انگریز بابو کی جاتے جاتے شرارت تھی ایسی شرارت کیوں کر کی؟ اس کے پیچھے قوی گمان یہی ہے کہ وہ ہم جیسے کمزور ملک کا وجود چاہتے تھے ۔

ایسا ملک جس کو فرنٹ لائن کے طور پر سوویت کمیونزم کو روکنے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ اپنے لیے استعمال کیا جاسکے۔

اس مقصد کے لیے انہوں نے یوپی، بہار اور حیدر آباد کے نوابوں کو چنا کہ یہ سب سے بہتر حل ہیں کیونکہ ان کو بھی ہندو اکثریتی علاقوں میں اپنی نوابی جمہوریت کی بھینٹ چڑھتی نظر آ رہی تھی۔

 یا یوں کہہ لیں حیدر آباد، یوپی اور بہار کے نواب اپنے تحفظات کا شکار تھے۔

 بہرکیف! انگریز بابو فنڈنگ انہی نوابوں کو کرتے رہے. اور یہ آگے مسلم لیگ کو دیتے رہے. تو قائد اعظم محمد علی جناح کا پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔

اکثر مؤرخین کی اس پر لڑائی رہتی ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان چاہتے تھے؟ یا نہیں۔

کچھ مؤرخین کے نزدیک وہ پاکستان چاہتے تھے۔کچھ کے نزدیک نہیں چاہتے تھے۔

بہرکیف! ہمارے قائد اعظم محمد علی جناح مان لیتے ہیں کہ پاکستان چاہتے تھے۔ تاکہ زیادہ احباب خفا نہ ہوں۔

پاکستان پچھتر کا ہوگیا ہے جب کہ قائد کی 74 ویں برسی ہے جس پر نہ تعطیل کا اعلان ہوتا ہے۔ نہ ہی کوئی برسی منائی جاتی ہے بلکہ مشکوک ولادت منائی جاتی ہے۔ 25 دسمبر والے دن۔

 اب اس پر بھی جھگڑا ہے کہ کچھ کے نزدیک ان کی پیدائش 26 دسمبر کو ہے۔ کچھ کے نزدیک 25 دسمبر،خیر اس لڑائی کو چھوڑئیے۔ہمارے نزدیک ان کی برسی ہے جس پر ہم ان پر کالم رقم کرنے کی جسارت کر رہے ہیں۔

ویسے جناح صاحب کی طرف آئیں تو ان کی تعلیم بھی مشکوک ہے۔ ہر شے ہی مشکوک رکھتے تھے۔ کہتے ہیں بیرسٹری کے ڈپلومہ ہولڈر تھےچلیں چھوڑیں ہر مدعا ہی لاجواب ہے۔

 محمد علی جناح کی 11 اگست 1947 عیسوی کی تقریر بہت مشہور ہے اتنی مشہور ہے کہ پاکستان کا لبرل طبقہ اس پر جان چھڑکتا ہے یہ وہ تقریر ہے جس میں قائد اعظم محمد علی جناح نے سکھوں، ہندوؤں کو کہا تھا کہ آپ آزاد ہیں اپنے اپنے مندروں،گرجا گھروں میں جانے کے لیے۔ اپنی اپنی عبادت گاہوں عبادت کرسکتے ہیں۔

ویسے اگر یہی سب کرنا تھا تو لاکھوں افراد کو قتل کروا کر، لاکھوں عورتوں کو بے آبرو کروا کر کیا ملنا تھا۔ بہرکیف ہمارے ہاں ایک طبقہ اسی ایک تقریر پر فریفتہ ہے۔

دو قومی نظریے کو دیکھا جائے۔ بقول اہل وطن جس کی بنیاد پر وطن عزیز حاصل کیا گیا۔ تو واضح ہے کہ دو قومیں ہندو اور مسلمان ایک جگہ آباد نہیں رہ سکتے۔ یعنی ہم نے علیحدہ وطن خالصتاً مسلمانوں کے لیے بنانا ہے۔ اس اعتبار سے تو وہ تقریر بھیکی پڑ جاتی ہے۔

 کیونکہ ہمارا مدعا یہی تھا کہ دو قومیں ایک چھت تلے آباد رہ نہیں سکتی۔ یہ اور بات ہے فقط پچیس سال بعد ہم خود ایک سے دو قوم بن کر دو حصوں میں تقسیم ہو گئے اور دوسرے والے فرحان ہیں کہ ان سے جان چھوٹی ۔

 اس پر دیکھا جائے تو دو قومی نظریہ تو آدھی صدی پہلے بیخ کنی ہو گیا تھا۔ ہم نے آدھ صدی بعد بھی کمال ہٹ دھرمی سے اس کو برقرار رکھا ہوا ہے۔

خیر یہ آرا ہماری قوم کے لیے ناقابل قبول سہی مگر ہیں حقیقت اور حقیقت کی یہ خوبصورتی ہے کہ ایک دن کھل کر سامنے آ ہی جاتی ہے۔

پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے بطور گورنر حلف اٹھایا۔ یہ معروف ہے کہ قائد محترم ایک روپیہ تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ لگ بھگ ساڑھے چار ہزار روپے کی رسید بمع دستخط موجود ہے۔

 پھر کوئی بھگت کھڑا ہو جائے گا کہ ہمارے ابا جان جی یہ بابائے قوم تھے مدرسے کو فنڈنگ کرتے ہیں جھوٹ کے پاؤں تو ہوتے نہیں۔مغالطے کی کتاب مطالعہ پاکستان تو یہ بتلاتی ہے کہ وہ قومی خزانے پر بوجھ نہیں بننا چاہتے تھے اور یوں دیکھا جائے تو وہ قومی خزانے پر تو بوجھ ہی تھے۔ اب کوئی تسلیم نہ کرے تو اس کو بابائے قوم مبارک ہوں۔

قیوم نظامی صاحب اپنی کتاب قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل میں حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قائد اعظم جنرل ایوب جیسے بکواس انسان کی قائدانہ صلاحیتوں کو بھانپ گئے تھے اس لیے ان کو مشرقی پاکستان کی رخصت کا پروانہ تھما دیا تھا جو ایک برگیڈیر کی سفارش سے بھی واں نہ ہوا۔

 یہی نہیں وہاں بھی قائداعظم نے ایوب کو کمانڈنگ جاب دینے سے روکے رکھا۔ یہاں تک کہ اپنے پاس کھڑے ہونے سے منع کر دیا۔

کنفیوژن کا شکار یہ قوم نہیں دیکھتی کہ اُسی قائد اعظم کے نواسے کو پاکستان میں گزرے بسر کے لیے ملک ریاض کے وظیفہ پر صد شکر بجا لانا پڑا جب کہ ایوب خان کے پوتے آج بھی اول درجے کے لوٹے ہونے کے باوجود شان و شوکت سے پہ در پہ وفاقی وزارتوں کے قلمدان سنبھال رہے ہیں۔

جب جنرل ایوب خان کو موقع ملا تو اپنی آمریت میں اس نے مادرِ ملت یعنی قومی ماں کو فوجی اعزاز کے ساتھ گلے میں لالٹین ڈال کر کتیا سے تشبیہ دی۔

 ذرا غور کیجئے!نظر دوڑائیے کیا یہ ریاست ان افراد کے ساتھ کئے گئے ایسے سلوک کی متحمل تھی؟

برسی منائیں یا ولادت کم از کم یہ تو مانیں کہ آپ نے ان کو کیا مقام دیا ہے؟ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے اس کے بعد انہیں دشمن کی ضرورت رہتی ہے کیا ؟

Recommended