Urdu News

باپ ایک محافظ ستون

ابوشحمہ انصاری

ابوشحمہ انصاری

سعادت گنج،بارہ بنکی

باپ گھر کا وہ اہم ستون جس کے بنا گھر کی عمارت پائیدار نہیں رہتی بلکہ کمزور پڑ کر گرتی چلی جاتی ہے۔ باپ کے بارے میں حضور اکرمﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ "باپ جنت کا دروازہ ہے۔" ہمارے معاشرے میں اس رشتے کو باپ، بابا، ابو، ابا، ابی، ڈیڈ، پاپا، فارد جیسے بہت سے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ مگر اس رشتے کو جو بھی نام دیں اس کی لذت ہمیشہ سے ایک سی ہے۔ باپ زندگی عطا کرنے والا انسان مسیحا اور زندگی کی دھوپ کا گھنا سایہ ہے۔ باپ کی فضلیت و اہمیت کے لیے کسی بات کی دلیل دینے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ اس نام، اس رشتے کا رتبہ و مقام بہت بلند ہے۔

ماں، جو جنم دیتی ہے پالتی پوستی ہے وہ بھی تبھی ممکن ہے یہ ضروریات پوری کرنے والا کوئی اور ہوتا ہے وہ ہوتا ہے "باپ" اور باپ اپنی اولاد کے لیے ساری زندگی محنت مزدوری کرتا ہے تاکہ اس کی اولاد اچھا کھائے پلے بڑھے وہ اسکی تربیت کے لیے اپنی جان جوکھوں پر لگا دیتا ہے مشقت کرنے سے نہیں گھبراتا کہ میری اولاد یہ نہ کہے ہمارے باپ نے ہمارے لیے کچھ نہیں کیا۔ اسلام میں ماں کی طرح باپ کے مقام کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے۔ باپ کا ادب کرنا اولاد پر فرض قرار دیا گیا ہے۔

والدین کے بارے میں یہ تک کہا گیا کہ "اگر وہ بوڑھے بھی ہوجائیں تو انہیں اف تک نہ کہو۔ ان کی ہر بات مانو۔ ان کی حکم عدولی نہ کرو سوائے شرک کرنے کے۔"

کوئی بھی باپ ایسا نہیں ہوتا جو جانتے بوجھتے اپنی اولاد کو غلط راہ پر گامزن کرے بلکہ وہ تو ہر ممکن طریقے سے کوشش کرتا ہے کہ اپنی اولاد کو رزق حلال کھلائے۔ باپ اپنی اولاد کو یہی سمجھاتا ہے اگر کھانا پینا اچھا ہے تو اپنا لہجہ اور تربیت بھی اچھی نظر آنی چاہیے۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے حلال، حرام کوئی معنی نہیں رکھتا مگر وہ دنیا میں ہی اس کا انجام دیکھ لیتے ہیں جب ان کی کمائی حرام کی دولت سے ان کی اولاد نافرمانی کرتی ہے انہیں تنہا چھوڑ دیتی ہے۔ یہ بات بھی بالکل غلط ہے کہ والدین کے بوڑھا ہونے پر انہیں اولڈ ہوم یا ایدھی سنثر چھوڑ آیا جاتا ہے۔ کیا ایسے بیٹوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جب وہ بے سہارا تھے محتاج تھے تب ان کے ماں باپ نے انہیں پالا، جوان کیا اور اب جب انہیں اپنی اولاد کی ان کے لیے کی خدمت درکار ہے تو انہوں نے منہ ہی پھیر لیا۔                              

 باپ، جو اپنی جوانی سے بڑھاپے تک تمام عمر اپنی اولاد کے لیے کماتا ہے گھر سے دور رہتا ہے جب اولاد اپنے باپ کے بل پر پڑھ لکھ کر جوان ہوجائے تو باپ کو آنکھیں دکھانے لگتی ہے جیسے انہیں قدر ہی نہیں ہمارے باپ نے ہمارے لیے کیا کچھ کیا تھا۔ پھر وہ دکھوں کی چادر خود پر اوڑھے چپ چاپ نم آنکھوں سے سب کچھ برداشت کرتا رہتا ہے۔

باپ کی اہمیت ان بچوں سے پوچھیں جن کے سروں پر یہ مہربان سایہ نہیں ہے۔ وہ بچے جنہوں نے بچپن میں ہی اپنے باپ کو کھو دیا وہ باپ جو اپنے بچوں کے لیے کماتا رہا اور جب بچے اس قابل ہوئے کہ وہ اپنے باپ کی محنت کا ثمر اسکی خدمت کر کے ادا کریں تو رضائے خداوندی سے وہ باپ اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے۔

جیسے سب کہتے ہیں کہ ماں کے بغیر گھر قبرستان ہے اسی طرح باپ کے بنا گھر کی بنیاد ہی نہیں ہے۔ وہ باپ جس کے ہوتے ہوئے زندگی میں کبھی کانٹا نہ چبھا اسی باپ کے نہ ہونے پر دنیا کا ہر غم اسی اولاد کی زندگی کو اپنا مسکن بنا لیتا ہے۔ باپ کے ہونے پر نازوں سے پلے بچے جب اس کے فوت ہونے پر دنیا کی لگی ٹھوکروں کی زد میں آتے ہیں تو ایکدم سے بلبلا اٹھتے ہیں کیونکہ انہوں نے ایسی زندگی کا تصور بھی نہیں کیا ہوتا جو بن مانگے ان پر دھوپ کی طرح برسا دی جاتی ہے۔ باپ جس کے زندگی میں ہوتے ہوئے کسی کی مجال نہیں ہوتی کہ اس کی اولاد کو جھڑکیں بھی، اس کے جانے بعد دنیا ستم کی انتہا کردیتی ہے۔

سچ یہی ہے کہ زندگی میں بہار اپنے باپ کے دم سے ہی ہے باپ کے ہونے پر جس گھر میں ہر وقت رونق لگی رہتی ہے باپ کے نہ ہونے پر وہاں قبرستان جیسی گہری خاموشی چھا جاتی ہے کیونکہ گھر والے جانتے ہیں اب ہر قدم انہیں سہج سہج کر رکھنا ہوگا کیونکہ جس کے بل پر وہ ہر خوشی مناتے تھے وہی نہیں رہا۔ وہ ماں جو اپنے شوہر کی تنخواہ سے اپنے بچوں کو اچھا کھلاتی پلاتی ہے عیش و عشرت سے بڑا کرتی ہے وہی ماں بیوہ ہونے پر سوچنے لگتی ہے اب رات کو کیا پکائے گی انتظام کرنے والا تو دور جا چکا تھا۔ پھر وہ اپنے بچوں کو ڈانٹتی ڈپٹتی ہے تاکہ وہ زمانے کے ستم سہنے کے قابل ہو جائیں پھر ایک وقت آتا ہے جب بنا باپ کے پلے بڑھے بچے اس قابل ہو جاتے ہیں کہ وہ دنیا کے ہر طوفان کا مقابلہ کرسکیں تو ہر کوئی احسان جتانے لگتا ہے کہ ہمارے پیسوں پر پلے بڑھے آج ہمیں ہی آنکھیں دکھا رہے ہیں حالانکہ یہ یا تو وہ بیوہ ماں جانتی ہے یا اس کا خدا کہ بیتا وقت کتنا کٹھن رہا ہے۔               

 بیٹے کے لیے باپ ہی اسکا خاص دوست ہوتا ہے جس سے وہ اپنی ہر بات شئیر کرتا ہے بیٹا اکلوتا ہو تو اس کی تربیت زیادہ اچھے سے کی جاتی ہے اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھا جاتا ہے پھر وہ لاڈلا بیٹا اپنے باپ کے پیار بھرے لمس کا عادی ہو جاتا ہے باقی ماندہ زندگی اسے کسی اور دوست کی چاہ نہیں رہتی اور جب قسمت اس دم سے اس شفیق دوست کو اپنے پاس بلا لے تو وہ بیٹا کم گو بن جاتا ہے کیونکہ اسکا واحد دوست بھی اس کے پاس سے چلا جاتا ہے جس کے بنا اس نے جینے کا کوئی پلان بھی نہیں بنایا ہوتا

ایک بیٹی کے لیے اسکے باپ ہی اس کا آئیڈیل ہوتا ہے۔ وہ اپنے بابا کو وہ ہیرو مانتی ہے اس کی چاہ ہوتی ہے کاش کہ دنیا کا ہر شخص اس کے باپ کے جیسا مہربان اور شفیق ہو۔ اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشیں اسی سے پوری کروا کے وہ بہت خوش ہوتی ہے۔ مگر اس کے سر سے جب یہ مہربان سایہ چھین ہی لیا جاتا ہے تو اسے کچھ سمجھ نہیں آتا وہ بھری دنیا میں کس کے سامنے اپنے دکھڑے روئے۔

بن باپ کے بیٹی کو یہ دنیا بہت کوسنے دیتی ہے اور وہ اپنے باپ کی دی تربیت کا مان رکھتے ہوئے ہمیشہ اس دنیا کا لحاظ رکھتی ہے چپ چاپ ہر ستم سہتی اس کے دل سے ہمیشہ یہی دعا نکلتی ہے۔

"کاش بابا! آپ مجھے چھوڑ کر نہ جاتے۔ آپ واپس آجائیں اور دیکھیں آپ کی بیٹی کو آپکی کس قدر ضرورت ہے۔" لیکن اس کی یہ دعا حسرت بن کر اس کے دل میں بیٹھ جاتی ہے کیونکہ ایسا کبھی ممکن ہوا ہے کہ دنیا سے چلے جانے والے لوٹ آئے ہوں۔

Recommended