صحافت عبادت ہے اور عبادت کی ریاضت کا اپنا ہی مزہ ہے۔جیسے عابد کو عبادت، محب کو محبوب، سخن ور کو سخن عزیز ہوتا ہے ایسے ہی صحافی کو اپنی حق گوئی عزیز تر ہوتی ہے۔
صحافت کی دنیا میں بھی کالی بھیڑیں ہوتی ہیں جن کی صحافت زرد صحافت ہوتی ہے۔آج کے دورمیں بہت کم ہی صحافی ہیں جن کی صحافت ایسی ہے کہ ان کو حق گو کہا جاسکے۔آج ہم ایک حق گو صحافی کے متعلق قلم بند کرنے جا رہے ہیں۔ ان کا نام ایم آئی ظاہر ہے۔
ایم آئی ظاہر نے چھٹے ماہ کی چھٹی تاریخ یعنی 6 جون 1972 عیسوی کو جہاں آب و گِل میں آنکھ کھولی. آپ کی صحافیانہ صلاحیتوں کا ایک زمانہ اقراری ہے۔
آپ کو انٹرنیشنل پیس ایمیسیڈر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔عالمی ادبی فورم فار پیس اینڈ ہیومن رائٹس کی جانب سے آپ کو یہ اعزاز دیا گیا۔
اقوام متحدہ سے وابستہ اس تنظیم کے بانی کے بقول ایامِ متعدی وباء میں جب انسان نامی مخلوق کا پہیہ جام ہوا تو بے شمار مسائل نے جنم لیا۔
تو ان ایام میں مختلف لوگوں کے انٹرویوز کرکے ان کے مسائل کو اجاگر کرنے کی وجہ سے اور امریکی صدارتی انتخابات میں بڑھ چڑھ کر صحافیانہ صلاحیتوں کا منانے کے اعزاز میں آپ کو یہ ایوارڈ دیا گیا۔
اس سے قبل آپ نے کئی انعامات اور اعزازات اپنے نام کر رکھے ہیں۔ جن میں راجستھان ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکہ کیلگری کینیڈا کی جانب سے بین الاقوامی زبان ساہتیہ سمان ایوارڈ سے نوازا گیا۔جاگرتی سنستھا کی جانب سے شاہد مرزا گلوبل جرنلزم ایوارڈ سے نوازا گیا۔
مغربی بنگال اردو اکیڈمی کی جانب سے جام جہاں نما ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ آپ جودھ پور لٹریچر فیسٹیول، غالب ہفتہ اور تین بار جشنِ غالب کے کنوینر اور ناظم بھی رہے۔