مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اس بار رام نومی کی ”شوبھا یاترا “ کے نام پر فرقہ پرستوں نے ملک کی کئی ریاستوں میں فسادات بر پا کیے، یہ جلوس ہتھیار کے ساتھ نکالے گیے، بھڑکانے والے نعرے لگائے گیے ، فرقہ پرستوں نے یہ مظاہرہ پوری تیاری کے ساتھ کیا اور جہاں جہاں بھاجپا کی دال نہیں گل رہی تھی، وہاں کی حکومتوں کو بد نام کرنے کے لیے ماحول کو بگاڑا گیا، مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کے سامنے بھاجپا کی نہیں چلتی تو وہاں ہگلی ، رشرا، اور کئی جگہ فسادات کی آگ بھڑکائی گئی ہے۔
مسلم اکثریت علاقہ سے جلوس گزارنے کی منظوری نہیں دی گئی تو بغیر منظوری جلوس نکالا گیا، اور کہا گیا کہ ہندوستان میں اب ہم کو پوچھنا پڑے گا کہ کس طرف سے جلوس گذرے گا، بھاجپائیوں کی درخواست پرمرکزی وزارت داخلہ نے بنگال حکومت سے رپورٹ طلب کی ہے، گورنر بھی باہر نکل کر جائزہ کے لیے ہگلی کے فساد زدہ علاقوں کے دورے گیے ، ممتا بنرجی کی کوشش سے فساد بڑے پیمانے پر پھیل نہیں سکا، لیکن حکومت کو بدنام کرنے لیے جتنا ہو گیا وہ کافی ہے، معاملہ عدالت تک بھی پہونچ گیا ہے۔
بہار میں یہی حکمت عملی بھاجپائیوں نے سہسرام اور بہار شریف میں اپنائی، جلوس جب مسلم اکثریتی علاقہ میں پہونچا تو اسلحے لہرائے گیے ، بھڑکاو نعرے لگائے گیے اور جلوس میں شامل غیر سماجی عناصر جو اسی کام کے لیے لائے گیے تھے اور جلوس میں شامل تھے، توڑ پھوڑ مچانا شروع کر دیا، ایک سو دس سال پرانے مدرسہ کو آگ کی نظر کر دیا گیا ، قیمتی کتب خانہ جل کر خاکستر ہو گیا، مدرسہ کے سارے پرانے رکارڈ جلا دیے ، آگ کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دیواروں کے پلاسٹر تک اکھڑ گیے، تین دن کم وبیش یہ صورت حال رہی، لوگ گھروں میں بند ہونے پر مجبور تھے، کرفیو اور دفعہ 144 کے ذریعہ بھی قابو نہیں پایا جا رہا تھا تو مرکز سے نیم فوجی دستے طلب کیے گیے، تب کہیں حالات پر قابو پایا جا سکا۔
سہسرام میں بھی یہی صورت حال بنی اور وہاں بھی چن چن کر مسلمانوں کے گھروں میں آگ لگائی گئی، لوٹا گیا اور مسلمانوں کے گھروں پر بم پھینکے گیے۔
امارت شرعیہ کے ذمہ داروں نے اطلاع ملتے ہی کام شروع کیا، حکومت کو اس طرف متوجہ کیا کہ فوری طور پر اس پر قابو پایا جائے، ان فسادات میں جو نقصانات ہوئے اس کے جائزہ کے لیے امارت شرعیہ کی چہار نفری اعلیٰ سطحی ٹیم نے حضرت امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے حکم پر نائب امیر شریعت حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی مدظلہ کی قیادت میں بہار شریف کے فساد زدہ علاقوں کا دورہ کیا اور ، امارت شرعیہ نے مطالبہ کیا ہے کہ نقصانات کی تلافی کے لیے حکومت معاوضہ دے اور باز آباد کاری کا کام فوری طور پر کرے، حالاں کہ ہم خوب جانتے ہیں کہ جو مخطوطے اور کتابیں جلا دی گئیں اس کی تلافی کی تو کوئی شکل باقی ہی نہیں ہے ۔
سہسرام میں بھی وکلا کی ایک ٹیم کو امارت شرعیہ نے جائزہ کے لیے بھیجا اور قانون کے دائرے میں جو کچھ ممکن ہے امارت شرعیہ کر رہی ہے ، اب ایک نیا جلوس ہنومان شوبھا یاترا کے نام پر نکلے گی اور فرقہ پرست طاقتیں چاہیں گی کہ فساد کا نیا دور شروع ہو، وزارت داخلہ نے اس سلسلہ میں ریاستوں کے لیے رہنماا صول طے کیے ہیں،لیکن جنونی فرقہ پرست کو ان اصولوں کی پرواہ ہی کب ہوتی ہے۔
موجودہ فساد سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ دل ٹوٹا، اعتماد ختم ہوا، اور مخدوم شرف الدین یحی منیری ؒ اور شیر شاہ سوری کے شہر میں ہندو مسلم اتحاد اور بھائی چارے کی فضا کو سخت نقصان پہونچا ہے، ٹوٹے ہوئے ان دلوں کو جوڑنے، اعتماد بحال کرنے اور بھائی چارے کا ماحول بنانے میں برسوں لگیں گے ، اور ان برسوں میں نیا واقعہ وقوع پذیر ہو کر پھر سے ماحول کونہ بگاڑدے اس امکان سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔