Urdu News

نظم ونثرنگار،طنزومزاح کےمقبول اورمشہورشاعرضمیرؔ جعفری کی برسی پرخاص تحریر

شاعرضمیرؔ جعفری

اعجاز زیڈ ایچ

سید ضمیرحسین شاہ نام اور ضمیرؔ تخلص تھا۔ یکم؍جنوری 1914کو پیدا ہوئے۔ آبائی وطن چک عبدالخالق ، ضلع جہلم تھا۔ اسلامیہ کالج، لاہور سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔فوج میں ملازم رہے اور میجر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ راول پنڈی سے ایک اخبار ’’بادشمال‘‘ کے نام سے نکالا۔

کچھ عرصہ اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے سے منسلک رہے۔ پاکستان نیشنل سنٹرسے بھی وابستہ رہے۔ ضمیر جعفری دراصل طنزومزاح کے شاعرتھے۔کبھی کبھی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے سنجیدہ اشعار بھی کہہ لیتے تھے۔ یہ نظم ونثر کی متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ 17؍مئی 1999کو نیویارک میں انتقال کرگئے۔ تدفین ان کے آبائی گاؤں چک عبدالخالق میں ہوئی۔ ان کی مطبوعہ تصانیف کے نام یہ ہیں:

’’ کار زار‘‘، ’’لہو ترنگ‘‘، ’’جزیروں کے گیت‘‘، ’’من کے تار‘‘،’’مافی الضمیر‘‘، ’’ولایتی زعفران‘‘، ’’قریۂ جاں‘‘، ’’آگ‘‘، ’’اکتارہ‘‘، ’’ضمیریات‘‘۔

بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:50

مشہور مزاح نگار ضمیرؔ جعفری صاحب کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت۔۔۔

ان کا دروازہ تھا مجھ سے بھی سوا مشتاق دید

میں نے باہر کھولنا چاہا تو وہ اندر کھلا

ایک لمحہ بھی مسرت کا بہت ہوتا ہے

لوگ جینے کا سلیقہ ہی کہاں رکھتے ہیں

بہن کی التجا ماں کی محبت ساتھ چلتی ہے

وفائے دوستاں بہرِ مشقت ساتھ چلتی ہے

درد میں لذت بہت اشکوں میں رعنائی بہت

اے غمِ ہستی ہمیں دنیا پسند آئی بہت

ہنس مگر ہنسنے سے پہلے سوچ لے

یہ نہ ہو پھر عمر بھر رونا پڑے

اب اک رومال میرے ساتھ کا ہے

جو میری والدہ کے ہاتھ کا ہے

آشیاں کے ساتھ پوری زندگی بدلی گئی

کم نظر سمجھے کہ مشتِ بال و پر کی بات ہے

اپنی خبر نہیں ہے بجز اس قدر مجھے

اک شخص تھا کہ مل نہ سکا عمر بھر مجھے

Recommended