Urdu News

ناول خودکشی نامہ پر سفینہ بیگم کا تبصرہ

رضوان الحق کا ناول "خودکشی نامہ"

  ناول خودکشی نامہ پر سفینہ بیگم نے تبصرہ کیا ہے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو میں پی۔ ایچ ڈی ہیں اور حال کے برسوں میں جو نئے نام ابھرے ہیں ان میں فکشن کے حوالے سے وہ بہت نمایاں ہیں۔ پہش خدمت ہے ان کا تبصرہ۔

سفینہ بیگم
 رضوان الحق کا ناول "خودکشی نامہ" اردو ناول کی روایت میں اپنے موضوع اور طرز اظہار دونوں اعتبار سے اہم ہے۔ جس میں راوی کا طریقہ کار، بیان کی مختلف جہتوں کو سامنے لانے کے لیے ،واحد غائب اور واحد متکلم دونوں کا متوازی طور پر کام کرنا ، صورت حال کو جدید طرز سے آشنا کرتا ہے ۔ بظاہر  واحد متکلم اور غائب راوی کا امتزاج ، اتنا موثر معلوم نہیں ہوتا ، لیکن اس بیان نے کہ " یہ ناچیز طالب ایک غائب راوی کے ہمراہ ایک بار پھر قصہ گوئی کے لیے آپ تمام لوگوں کی خدمت میں حاضر ہے" قاری کے فہم پر کئ حوالوں سے دستک دیتا ہے۔راوی نے پیش گفتار کے تحت فکشن کے متلعق جن اصول و ضوابط پر  روشنی ڈالی ہے وہ میٹا فکشن Metafiction کے زمرے میں شامل ہوگا ،جس میں ہر مقام پر راوی کو اپنی حیثیت کا احساس، صورت حال سے باخبر بھی رکھتا ہے۔ آگے چل کر یہ نوعیت قدرے تبدیل ہوجاتی ہے جس میں سچ اور جھوٹ کے درمیان معلق حقیقی یا غیر حقیقی دنیا کے تضاد میں پوشیدہ معنویت، واقعات کے تناظر میں اجاگر ہوتی نظر آتی ہے۔ راوی کا یہ کہنا کہ قصہ مجھے سرگوشی اور خودکلامی کے انداز میں ہی سنانا ہے۔۔ اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ وہ خودکشی جیسے کریہہ فعل ،اور اس کے متعلق گفتگو میں کسی دوسرے کو شامل کرنا نہیں چاہتا ہے۔ لیکن نا چاہتے ہوئے بھی ،  اس عمل میں دیگر افراد بھی شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یعنی خودکشی کا عمل ذات سے منقطع ہوکر ایک سماجی مظہر بن جاتا ہے۔ لہذا انسانی تشخص کی پامالی اور  وجود کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل اکثر و بیشتر سماج میں ہی پیوست نظر آتا ہے۔  
ناول میں جہاں ایک طرف خودکشی نفسیاتی اور ذاتی معاملہ ہے وہیں دوسری جانب اس کے پیچھے ایک مضبوط سماجی اور تہذیبی پس منظر بھی موجود ہے۔ دراصل ہر انسانی رویہ یا ہر فرد کے خارجی اعمال، کسی نہ کسی داخلی سبب کا نتیجہ ہوتے ہیں اور یہ داخلی اسباب بھی خارجی ماحول سے اخذ شدہ عوامل کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں یعنی کہیں نہ کہیں انسانی فکر بھی دائروی شکل میں تشکیل پذیر ہوتی ہے جس میں جدلیاتی کشمکش کی بنیاد پر تمام حرکات و سکنات وجود میں آتے ہیں۔
ناول میں رضیہ، رمابالا، غفور چچا،انجنا ، جمال کی خودکشیوں کے پیچھے محتلف اسباب کا بیان، خوش اسلوبی اور موثر انداز میں کیا ہے لیکن کجن کو درپیش مسائل اور صورت حال کو واقعاتی تناظر میں تفصیلاً بیان کیا جاتا تو بیان میں اثرانگیزی پیدا ہوسکتی تھی۔ ناول میں، راوی کی،  انجنا کے سایے سے ملاقات ،اس کے اپنے نفسیاتی دباؤ اور ذہنی الجھن کے تحت وقوع پزیر ہوتی ہے جس میں راوی اس کی خودکشی کے سبب کے متعلق گفتگو کرتا ہے۔۔ دراصل یہاں راوی کا مقصد ، اس کے خودکشی نامے سے آگاہی حاصل کرنا تھا تاکہ  خودکشی کا اصل سبب دریافت کرسکے جس کی بنیاد پر انجنا کے سایے کو خلق کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ لیکن بعض مقامات پر طرز اظہار نے قدرے مبہم صورت اختیار کرلی ہے۔۔ ناول میں علت معلول یا سبب و نتیجے کی منطقی شکل خارج سے داخل اور پھر داخل سے خارج کی طرف سفر کرتی نظر آتی ہے۔ ناول کا مطالعہ کئ حوالوں سے سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور قاری کا ذہن ، خودکشی میں پوشیدہ نفسیاتی عوامل کو مزید تلاش کرنے کی جانب مائل ہوتا ہے۔

Recommended