نادرعلی خاں کی یاد میں
تحریر: معصوم مرادآبادی
اردو صحافت کے نامور محقق اور ممتاز مبلغ پروفیسر نادرعلی خاں کو کل بعد نماز ظہر ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کردیا گیا ۔ ان کے جنازے میں شامل لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے آج تک علی گڑھ میں کسی جنازے میں عقیدت مندوں کا اتنا ہجوم نہیں دیکھا۔ وہ واقعی ایک نیک انسان تھے ۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی اپنے رب کی اطاعت میں گزاری اور ہزاروں انسانوں کو اپنے پالن ہار سے جوڑا۔
میری ان سے کوئی شناسائی نہیں تھی اور جو کچھ بھی تعلق پیدا ہوا، وہ اردو صحافت پران کی کتابیں پڑھ کر ہی پیدا ہوا تھا۔ ان کا شمارہ اردو صحافت کے ان ابتدائی محققین میں ہوتا ہے جنھوں نے برصغیر میں اردو صحافت کی تاریخ پرنہایت عرق ریزی کے ساتھ کام کیااور ہم جیسے طالب علموں کووافر مقدار میں خام مواد فراہم کیا۔ اس صف کے دیگر لوگوں میں محمدعتیق صدیقی، عبدالسلام خورشید، مولانا امدادصابری اور گربچن چندن کے نام آتے ہیں۔ ان میں مجھے مولانا امدادصابری اور گربچن چندن سے براہ راست استفادے کا موقع ملا ہے، لیکن نادرعلی خاں سے باوجود کوشش اور خواہش کے مجھے نیازحاصل نہیں ہوسکا۔ مگر جب بھی علی گڑھ گیا تو ان سے ملنے کی آرزو لے کر گیا اور ہربارخالی ہاتھ آیا۔ وہ کافی عرصے سے صاحب فراش تھے اور کم ہی لوگوں تک ان کی رسائی تھی۔
نادرعلی خاں نے علی گڑھ میں ہی تعلیم حاصل کی تھی اور وہیں شعبہ اردو میں تدریسی خدمات انجام دیں۔وہ یونیورسٹی کے بڑے غیور اساتذہ میں شمارہوئے۔سبکدوشی کے بعد ان کی زندگی کا بڑا حصہ دہلی کے حضرت نظام الدین کی بنگلے والی مسجد کی دوچھتی میں گزرا، جہاں وہ دین کی تبلیغ میں ہمہ وقت مشغول رہے، لیکن علی گڑھ سے انھیں جو قلبی تعلق تھا، وہ انھیں عمر کے آخری حصے میں وہاں لے گیا تھا۔ وہیں انھوں نے آخری سانس بھی لی اور یونیورسٹی قبرستان میں دفن بھی ہوئے۔ وہ پروفیسر آل احمدسرور کے چہیتے شاگردوں میں شامل تھے۔ ان کا شمار علی گڑھ کے ان اساتذہ میں ہوا جنھوں نے اس دانش گاہ میں اردوزبان و تہذیب کی آبیاری کی۔ اس دور کی ایک گروپ تصویر میں جو مارچ 1957 میں علی گڑھ میں منعقدہ تاریخ ادب اردو کانفرنس کے موقع پر لی گئی تھی، وہ پروفیسر آل احمدسرور، مجنوں گورکھپوری، مالک رام، قاضی عبدالودود، پروفیسر رشیداحمدصدیقی، محی الدین قادری زور، پروفیسر محمدحسن، خلیل الرحمن اعظمی، معین احسن جذبی اور پروفیسرقمررئیس وغیرہ کے ساتھ نظر آرہے ہیں۔وہ اس تقریب کے آخری عینی گواہ بھی تھے۔اس یادگار تصویر میں وہ کالی شیروانی اور ڈاڑھی میں اس لیے نمایاں نظر آرہے ہیں کہ وہ ایک طویل القامت انسان تھے۔ محض جسمانی طورپر ہی ان کا قد بلند نہیں تھا بلکہ وہ کردار کے اعتبار سے بھی بلندقامت شخصیت تھے۔
مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کرنے کے بعد یہاں ان کا تقرر بطور ریڈر ہوا تھا۔ جب ان کے پروفیسر بننے کی باری آئی توانھوں نے یہ کہہ کر درخواست دینے سے منع کردیا کہ ان کے بزرگوں نے ان کے لیے زندگی گزارنے کے جو پیمانے مقرر کئے ہیں،ان میں ریڈر کی تنخوا ہ ہی ان کے لیے کافی ہے۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ کسی بھی یونیورسٹی کے استاد کے لیے پروفیسر بننا بڑے اعزاز کی بات ہوتی ہے اور لوگ اس کے لیے جوڑتوڑ بھی کرتے ہیں، لیکن نادرعلی خاں جس خمیر سے بنے تھے اس میں ان کے لیے ایسے تمغوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔ انھوں نے کبھی نہ تو پروفیسر کا لاحقہ استعمال کیا اور نہ ہی ان کی تحقیقی کتابوں میں ان کے نام کے ساتھ پروفیسر لکھا ہوا ہے۔ یہی ادا ڈاکٹر کلیم عاجز کی بھی تھی۔ انھوں نے بھی پروفیسر بننے کے بعد کبھی اپنے نام کے ساتھ یہ لاحقہ استعمال نہیں کیا ۔ یہاں تک کہ اعلیٰ شعری خدمات کے لیے جب انھیں پدم شری کے اعزاز سے نوازا گیا تو وہ اسے لینے دہلی نہیں آئے اور حکومت کو یہ اعزاز ان کے گھر پٹنہ بھجواناپڑا۔ نادرعلی خاں اور ڈاکٹر کلیم عاجز کے درمیان ایک اور قدرمشترک یہ تھی کہ دونوں ہی تبلیغی جماعت کے اہم رکن تھے اور اپنی زندگی کا بیشتر حصہ دونوں نے دعوتی کاموں میں صرف کیا۔
نادرعلی خاں 16 جون 1931 کو مغربی یوپی کے باغپت ضلع کے گاؤں رٹول کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ دہلی سے صرف 25کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ گاؤں کھیکڑا تحصیل کا حصہ ہے اور یہاں کے آم بہت مشہور ہیں۔نادرعلی خاں کی شخصیت اور کردار میں ان آموں کی حلاوت اور خوشبو موجود تھی۔ان کا خاندان اسکالروں کا معروف خاندان تھا۔علی گڑھ میں دوران تعلیم ان کے استاد پروفیسر آل احمد سرور نے انھیں ’منشی نول کشور کی حیات وخدمات‘ پر تحقیق کرنے کا حکم دیا۔ وہ اس سلسلے میں مواد تلاش کرتے ہوئے جب یونیورسٹی کی لائبریری پہنچے تو اپنے موضوع سے زیادہ مواد انھیں اردو صحافت اور اردو طباعت پر نظر آیا۔لہذا انھوں نے خود کو اس کام پر ڈال دیا اور اسی تحقیق وجستجو کے نتیجے میں دوانتہائی اہم کتابیں وجود میں آئیں۔ پہلی کتاب ’اردو صحافت کی تاریخ‘ ہے، جو اردو صحافت کی ابتداء سے متعلق بنیادی حوالہ کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کتاب کی تکمیل یوں تو 1960 میں ہوگئی تھی،لیکن اسے طباعت کی منزل تک پہنچنے میں 27 سال لگے اور اسے ایجوکیشن بک ہاؤس نے 1987 میں بڑے اہتمام سے شائع کیا۔اب یہ کتاب نایا ب ہے۔اس کتاب کا انتساب نادرعلی خاں نے اپنے مشفق استاد پروفیسر آل احمد سرور کے نام کیا ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ 1991 میں History of Urdu Journalism کے نام سے ادارہ ادبیات دہلی نے شائع کیا۔نادرعلی خاں کی دوسری کتاب ’”ہندوستانی پریس:1556تا 1900‘‘ہے جسے اترپردیش اردو اکیڈمی نے 1990 میں شائع کیا تھا۔اس کتاب میں انھوں نے ہندوستان میں فن طباعت کے آغازوارتقاء کا جائزلیا ہے اور ملک کے طباعت خانوں کا تفصیلی تعارف پیش کیا ہے۔
نادرعلی خاں کی زندگی میں ایک اہم انقلاب اس وقت برپا ہوا جب ان کی ملاقات شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا کاندھلوی سے ہوئی۔ امیر تبلیغ مولانا محمدیوسف اور مولانا محمدزکریا نے ان کی زندگی کا رخ تبلیغ دین اور آخرت کی تیاری کی طرف موڑ دیا۔پھر انھوں نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔حالانکہ وہ عالم دین نہیں تھے، لیکن دینی امور میں ان کا مطالعہ اتنا وسیع تھا کہ ان کی تقریروں میں قرآن وحدیث کے حوالوں کی بھرمار ہوتی تھی اور لوگ انھیں بڑے شوق سے سنتے تھے۔نادرعلی خاں امریکہ کے سفر پر روانہ ہوئی اس جماعت میں شامل تھے جو وہاں حادثے کا شکارہوئی اور اس میں ان کے دوساتھی جاں بحق ہوگئے۔نادرعلی خاں کی ٹانگیں بھی اس حادثہ میں مجروح ہوئیں اور وہ بیساکھیوں کے سہارے ہندوستان واپس آئے۔ان کی بیشتر زندگی تبلیغی سرگرمیوں میں گزری۔ انھیں پوری دنیا کے تبلیغی حلقوں میں بڑے احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔آمین