Urdu News

ایک نوجوان صاحب قلم مفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی

دارالعلوم دیوبند

محمد اخلاق الرحمن قاسمی

 استاذ تجوید و قرات دار العلوم دیوبند حضرت مولانا قاری شفیق الرحمن بلند شہری مد ظلہ العالی کے فرزند ارجمند مفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی ایک صالح نوجوان اور مضبوط و بافیض عالم دین ہیں، شریف باپ کی شریف اولاد ہونے کے ساتھ علم و عمل کا حسین سنگم ہیں، اخلاق وکردار اور حسن معاشرت میں بزرگوں کی روایات کے امین ہیں۔

فیاضی وسخاوت اور دوسروں کے لیے ہمدردی والے جذبات میں اپنے والد محترم کے سچے جانشین ہیں۔ وضعداری اور رکھ رکھاؤ والی صفت بھی ان میں بہت نمایاں ہے۔ اسلاف سے اعلی درجے کی شرعی عقیدت اور مکمل احترام نیز صالحین سے محبت ان کا شعار ہے۔ میں نے بارہا ان کو یہ شعر گنگناتے ہوے سنا:

احب الصالحین ولست منہم

لعل اللہ یرزقنی صلاحا

  اس سے آپ ان کے دلی جذبات وخیالات کا بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں۔ وہ حقیقت میں نیک اور صاحب علم و فضل ہیں اور نیکی اور نیک لوگوں سے محبت کرتے ہیں۔ کئی بزرگوں سے ان کا اصلاحی تعلق رہا ہے اور ان اکابر کی طرف سے ان کو اجازت وخلافت بھی حاصل ہے۔

قدرت نے انھیں گو ناگوں خصوصیات سے نوازا ہے۔ چناں چہ وہ ایک خوش بیاں مقرر ہونے کے ساتھ بہترین قلمکار بھی ہیں۔ دلِ درد مند رکھتے ہیں اس لیے تحریر و تقریر دونوں میں اثر انگیزی صاف نظر آ تی ہے۔ ان کی تحریریں شست، صاف اور آسان ہوتی ہیں۔ سوانح، خاکہ نگاری اور دعوت واصلاح ان کے موضوعات ہیں۔

زیادہ تر خامہ فرسائی اِنھیں تین موضوعات پر کرتے ہیں؛ مگر کئی دفعہ حالات کے تناظر میں بھی قلم کو جنبش دیتے ہیں تو قلم کا حق ادا کرتے ہیں۔ جاری حالات پر انھوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ سب راہنمائی کا ایک فاضلانہ انداز اور اسلاف ہی کا نظریہ ہے جسے انھوں نے نئے اسلوب میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ اپنی کوشش میں کامیاب بھی ہیں۔

آپ کو نظر آئے گا کہ ان کی تحریروں میں سادگی کے ساتھ ندرت و بانکپن بھی ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی تحریر یں حوالوں سے مزین اور دلائل و براہین سے آراستہ ہوتی ہیں۔

موصوف کی پیدائش 19 مارچ 1982ء میں یوپی کے مشہور شہر بلند شہر میں ہوئی۔ نورانی قاعدہ اور ناظرۂ قرآن کی تعلیم گھر کے قریب ایک مکتب میں ہوئی، اس کے بعد تقریباً دوپارے قاری محسن صاحب کے سامنے حفظ کیے، بعد ازاں پورا قرآن مع تجوید و قرأت اپنے والد محترم سے پڑھا، دو سال شعبۂ تجوید میں رہے اور اسی درمیان حضرت مولانا قاری جمشید علی صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند سے فارسی کی ضروری تعلیم حاصل کی۔

اس کے بعد باقاعدہ عربی اول میں داخل ہوے اور پھر  2003ء میں سند فراغت حاصل کی۔ دورۂ حدیث میں آپ کے اساتذہ میں حضرت مولانا نصیر احمد خان صاحب شیخ الحدیث قدس سرہ، حضرت مولانا عبدالحق اعظمی قدس سرہ حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری قدس سرہ، حضرت مولانا سید ارشد مدنی، حضرت مولانا قمر الدین صاحب گورکھپوری، حضرت مولانا نعمت اللہ اعظمی، حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی اور حضرت مولانا قاری عثمان دامت برکاتہم خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

مادر علمی دار العلوم دیوبند سے ہی انھوں نے 2004ء میں تکمیل افتاء کیا، اس کے بعد اساتذہ دارالعلوم دیوبند کے حکم سے دو سال دارالعلوام اسعدیہ ایکڑ خورد، ضلع ہری دوار اترانچل (اتراکھنڈ) میں تدریسی خدمات انجام دیں، 2008ء میں بنگلور منتقل ہوے، یہاں ایک مدرسے میں چھ سال کتب فقہ، اصول حدیث اور حدیث کی مشہور کتاب سنن ترمذی کی تدریس کا شرف حاصل رہا اور ساتھ میں امامت و خطابت کے بھی فرائض انجام دیتے رہے، اس وقت شہر بنگلور کے کئی مقامات پر دروس تفسیر اور تاریخ  کے محاضرات پیش کرنے کی ذمہ داری کے ساتھ درس ترمذی کا بھی سلسلہ ہے اور قرآن و حدیث آن ٹی وی چینل پر اسلامی خطبات کی ذمہ داری ہے۔

ایک درجن س زیادہ تصانیف ہیں جن میں نقوش حیات (سوانح حضرت مولانا نصیر احمد خان بلند شہری، سابق شیخ الحدیث وصدر المدرسین دارالعلوم دیوبند)، قافلۂ علم و کمال، دعوت فکر و اصلاح  جیسی کئی ضخیم کتابیں بھی مقبول خاص و عام ہیں۔ بنگلور شہر کی معروف مسجد بنام الفاروق میں امام و خطیب اور مفسر کی حیثیت سے خدمات  دے رہے ہیں۔

شہر بنگلور کے مشہور اور معتبر علماء میں ان کا شمار ہے۔ اور وہیں مسجد الفاروق کے قریب میں رہائش ہے۔ اللہ موصوف کی عمر اور علم میں برکت عطا فرمائے اور ان کا زور قلم اور زیادہ کرے۔ آمین

Recommended