ذوالفقار علی بخاری،پاکستان
کسی بھی انسان کے لیے پذیرائی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔
جب کسی کو شاباشی ملتی ہے تو وہ مزید بہترین کارکردگی دکھانے پر مائل ہوتا ہے۔
کسی بھی شخص کو سراہنے کے لیے اچھے الفاظ کاجہاں استعمال کیا جاتا ہے وہیں اسناد اور ایوارڈزس بھی دیے جاتے ہیں۔جو زندگی بھر کا اثاثہ ثابت ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں حوصلہ افزائی کرنے کا رجحان قدرے کم ہے لیکن کہیں نہ کہیں یہ اپنی جادو گری دکھا رہی ہے۔اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب نوجوان ادیب کچھ اچھا کرتے ہیں تو انھیں اکثر احباب سراہنے سے گریز کرتے ہیں تاکہ وہ وقت سے پہلے ہوائوں میں نہ اڑنا شروع ہو جائیں لیکن یہ بات بے حد اہمیت کی حامل ہے کہ حوصلہ افزائی نفسیاتی طور پر انسان کو اس قدر مضبوط اور توانا کر دیتی ہے کہ وہ بھرپور محنت سے کسی خاص شعبے میں کچھ کر دکھانے کے لیے جذباتی ہو جاتا ہے۔
یہاں یہ بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ کچھ ادیب پزیرائی اور تنقید کو سر پر یوں سوار کرتے ہیں کہ وہ مزید کچھ اچھا کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں یا پھر لوگوں کی باتوں میں آکر اپنی منزل سے بھی دور ہوجاتے ہیں۔ ادبی دنیا میں کوئی ادیب اگر دیر پا عزت اور شہرت حاصل کرنے کا خواہاں ہے تو اُسے تنقید اور تعریف کو سر پر سوار کیے بنا صرف اور صرف اپنے کام پر توجہ رکھنی ہوگی کیوں کہ اگر وہ کہیں پھسل گیا تو پھر وہ منزل سے بہت دور نکل جائے گا اوراُس کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ اس لیے حوصلہ افزائی اگر نہ بھی ملے تو بھی کسی بھی ادیب کو اپنا کام کرتے رہنا چاہیے کہ ادبی دنیا میں اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بعد ازمرگ بھرپور انداز میں سراہنے کی روایت ہے۔
بہرحال، ادیبوں کے لیے قارئین کی رائے اہمیت کی حامل ہوتی ہے اسی کی بنیاد پر کوئی لکھنے والا مسلسل لکھتا ہی چلا جاتا ہے اورچند لکھنے والوں کے نزدیک قارئین کی رائے ایوارڈ یا سند کا درجہ رکھتی ہے۔
معروف بھارتی شاعر، ادیب و مترجم حسنین عاقب اپنے مضمون ’’ ادبی ایوارڈس، ممتاز راشد اورہمارا سماجی رویہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ایوارڈ چاہے سرکاری ہو یا غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے دیا جائے، کسی ایوارڈ کا مقصد ہوتا ہے ادیب یا فنکار کی پذیرائی اور اس کی خدمات کااعتراف کرنا۔ ایوارڈس ایک تخلیق کار مزید معیاری ادب تخلیق کرنے کے لیے حوصلہ اور تحریک دیتے ہیں۔ ایوارڈس، اعزازات اور انعامات کسی ادیب کو مزید معیاری ادب تخلیق کرنے ترغیب دیتے ہیں اگر وہ واقعی مستحق ادیب کو دیا جائے۔ کسی ادیب کو ملنے والا ایوارڈ دراصل اسے احساس دلاتا ہے کہ اس نے کئی دہائیوں پر محیط جو ادبی خدمات انجام دی ہیں، سماج ان خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ادیب یوں بھی ذکی الحس ہوتا ہے، اس کے دل کا آبگینہ ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے وہیں ذرا سی پذیرائی اس کے حوصلے کو مہمیز بھی کردیتی ہے۔لیکن عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ ایوارڈس کسی تخلیق کار کو ایسے وقت دیا جاتا ہے جب وہ یا تو خود اپنے ادب کی جگالی کررہا ہوتا ہے یا پھر ادب کی کسی بھی جہت میں کام کرنے سے کنارہ کشی اختیار کرچکا ہوتا ہے۔ یاتو وہ بیمار ہوچکا ہوتا ہے یا پھرگوشہ نشین ہوچکا ہوتا ہے۔کوئی ادیب، پھر چاہے وہ شاعر ہو یا نثر نگار، محقق ہو یا تنقید نگار یا پھر مترجم، ادب کو اظہارِ ذات کا وسیلہ سمجھتا ہے۔یاد رہے کہ ہم جہاں جہاں ’تخلیقِ ادب‘ کی اصطلاح استعمال کریں گے، اس کا مطلب ادب کا ہر زمرہ ہوگا یعنی تخلیق، تنقید، تحقیق و ترجمہ۔ ادیب کا کام ایسا ادب تخلیق کرنا ہے جو سماجی سروکاروں کا عکاس ہو۔ادب تخلیق کرنے میں ایک ادیب اپنی سب سے قیمتی متاع یعنی وقت، صلاحیت اور توانائی جھونک دیتا ہے۔ساری عمر وہ عام طور پر بغیر کسی ستائش یا صلے کی تمنا کے گزاردیتا ہے اس کے باوجود اسے کوئی ایوارڈ نہیں مل پاتا۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ادب کو پیشہ نہیں بناتے۔ پھر یہ لوگ اپنی کاوشوں کی پذیرائی کا انتظار کرتے کرتے عمرکی آخری حد کو پہنچ جاتے ہیں اور ایک مقام ایسا آتا ہے جب وہ ہر قسم کی پذیرائی سے بے نیاز ہوجاتے ہیں۔ یعنی چنے اس وقت ان کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں جب منہ میں دانت باقی نہیں رہتے۔ ایسی پذیرائی کس کام کی جو ایسے وقت کی جائے جب انسان کو اس پذیرائی سے کوئی فرق نہ پڑے، نہ اس کا حوصلہ بڑھے اور نہ ہی اس میں کوئی جو ش پیدا ہو۔ اس کے برخلاف جو ادیب ادب کو پیشہ ورانہ سطح پر لے جاتے ہیں اور تمول و ثروت مندی کے جھولوں میں جھولتے ہیں ان کی جھولیوں میں ایوارڈس ٹھونسے جاتے ہیں کیونکہ ان کا ’پی آر‘ (پبلک ریلیشن) بہت اچھا ہوتا ہے۔ایک اور ستم ظریفی یہ بھی ہوتی ہے کہ بعض مرتبہ ایوارڈس ایسے لوگوں کو دیئے جاتے ہیں جنہوں نے ادب میں ابھی چلنا سیکھا ہوتا ہے۔ ابھی ان کی بغلوں سے بیساکھیاں بھی نہیں نکلی ہوتی ہیں اور انہیں ایوارڈس سے نوازا جاچکا ہوتا ہے۔ ایسا اکثر ’بارگین‘ کی تھیوری کے مدنظر ہوتا ہے۔ اس ’بارگین تھیوری‘ میں اچھے اچھے اور بڑے بڑے لوگ شامل پائے گئے ہیں۔‘‘
جو اچھی کار کردگی کا مظاہرہ کر رہا ہو چاہے وہ ادبی دنیا میں کم وقت میں اپنا مقام بنا چکا ہو یا پھر برسوں سے مسلسل بہترین کام کر رہا ہو۔ اُن کو کسی بھی شکل میں پزیرائی ملنی چاہیے تاکہ ان کی خدمات کا اعتراف کیا جا سکے تاہم اس میں انصاف کا پہلو ضرور دیکھنا چاہیے ۔ ہمارے ہاں بعدا زمرگ کسی کی شکل میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں اورزندگی میں اس کو ایسا نظر انداز کیا جاتا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ گمنامی کا شکار ہو جاتا ہے ۔یہاں بات محض گمنامی کی نہیں ہے اکثر ادیب اس بات کو دل پر لے لیتے ہیں کہ ان کی بھرپور خدمات کے باوجود انھیں نظر انداز کیا جا رہا ہے جو کہ واقعی ادبی دنیا میں ایک المیہ ہے کہ برسوں ادب کے ذریعے شعور بیدار کرنے والا وہ شاباشی حاصل نہیں کر پاتا ہے جو اُس سے صلاحیتوں میں کم تر شخص حاصل کر جاتا ہے ۔ اس روایت کو توڑنا ہوگا کہ اُس دور میں جب کتاب پڑھنے والوں کی تعداد کم ہو رہی ہے ایسے میں ادیبوں کو جذباتی طور پر مفلوج کرنا افسوس نا ک امر ہے۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ ایسے احباب جنھوں نے مخصوص میدان میں بہت کچھ کرلیا ہوتا ہے اُن کی خدمات کو مسلسل ہی سراہا جاتا ہے اور جو ادبی میدان میں مختلف انداز میں اپنی ذات کو منواتے ہیں ان کو سراہنے میں کنجوسی برتی جاتی ہے اورمرنے کے بعد اعلیٰ پیمانے پر زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں۔ان کے نام سے ایوارڈس منسوب کر دیے جاتے ہیں اور پھر ان کے نام پر اپنی دکانداری چلائی جاتی ہے۔
ایک اور رجحان دیکھنے میں آیا ہے جو قدرے تکلیف دہ ہے کہ اکثر ادبی ایوارڈس ادبی دنیا کی عظیم ترین شخصیات سے منسوب کر دیے جاتے ہیں لیکن ان کی تقسیم میں انصاف نظر نہیں آتا ہے۔ اس کی روک تھام بے حد ضروری ہے کیوں کہ اس سے عظیم ترین ادبی شخصیات سے منسوب ایوارڈس کی اہمیت گھٹ جاتی ہے۔ابن صفی ، مظہر کلیم ایم اے، اے حمید ، اشتیاق احمد ، مسعود احمد برکاتی ، شہید پاکستان حکیم محمد سعیدکا نام لیں یا پھر کسی اور ادیب کا، ان سے منسوب ایوارڈس ہر ایک ادیب کی دسترس میں ہونا چاہیے۔ہمارے ہاں ہو یہ رہا ہے کہ مخصوص صنف کے احباب کے لیے ایوارڈس کے اجراء کا آغاز کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے دیگر صنف کے لکھاری اپنے محبوب ادیبوں سے منسوب ایوارڈس حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ اس لیے کہ مخصوص ادیب کے نام کے سہارے پر ایوارڈس مخصوص صنف کے لیے دیا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اگر کوئی ناول نگاری پر ایوارڈ ان ہستیوں سے منسوب کیا جائے تو پھر وہ ناول نگارحضرات کو ہی مل سکے گا حالاں کہ ہونا یہ چاہیے کہ ہر اُس ادیب کی دسترس میں یہ ایوارڈ ہو جو ادب اطفال کے لیے لکھ رہا ہے۔
میرے نزدیک ادیبوں سے منسوب ایوارڈس کو خاص صنف سے جوڑنا ان ادیبوں سے منسوب ایوارڈس کی اہمیت قدرے گھٹا رہا ہے۔اگرچہ مخصوص صنف پرایوارڈ س خاص صنف کو دینا غلط نہیں ہے لیکن اگر وہ ایوارڈ ہر سال دیا جائے تو پھر ایک ہی چہرے وہ وصول کریں گے جو کہ کسی طور مناسب نہیں ہے۔اگرچہ ان کا بنیادی مقصد کسی حوصلہ افزائی ہے لیکن اگر اس میں مسلسل ایک ہی چہرے دکھائی دیں گے تو پھر ان کی وقعت کم ہوتی چلی جائے گی۔ادب اطفال ہو یا ادب عالیہ عظیم ادیبوں سے منسوب ایوارڈ ز کو ہر ادیب کی پہنچ میں ہونا چاہیے تاکہ وہ یہ مسرت حاصل کرسکیں کہ ان کو عظیم ادیبوں سے منسوب ایوارڈ حاصل ہوا ہے۔اس کے لیے ایک مربوط طریقہ کار طے کرکے تقسیم کرنے کا لائحہ عمل بنایا جا سکتا ہے۔
ادبی ایوارڈس دراصل پزیرائی کی ایک صورت ہیں لیکن افسوس ناک صورت حال یہ دیکھنے کو بھی آتی ہے کہ کئی ادیب کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کی بنیاد پر یہ حاصل کرلیں ۔ یہ رجحان بہت خطرناک ہے کہ اس سے جہاں ادیبوں کی اپنی ساکھ متاثر ہوتی ہے وہیں اُن اداروں کا تاثر بھی خراب ہوتا ہے جو ایوارڈس کی تقسیم غیر مصنفانہ کرتے ہیں۔کتاب پر ایوارڈس کا سلسلہ اس قدر مقبول ہو چکا ہے کہ اب کئی ادیبوں کی کتب پر ایوارڈس دیے جاتے ہیں اس حوالے سے اکثر غیر جانبداری کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک سنگین صورت حال یہ پیدا ہو چکی ہے کہ کتب پر ایوارڈس ہونے کی وجہ سے اکثر ادیب وقت سے پہلے صاحب کتاب بننے کی خواہش رکھتے ہیں اور قارئین چاہے ان کی تحریروں کو پسند نہ کریں وہ صاحب کتاب بن کر ایوارڈ یافتہ ادیب کہلائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے دیگر ادیب خائف دکھائی دیتے ہیں اور ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ درست بھی ہے کہ اگر کسی کی کتاب قارئین میں مقبولیت کی حامل نہیں ہے لیکن وہ ایوارڈ حاصل کرتی ہے تو پھر جو قارئین کتاب خرید کر پڑھتے ہیں وہ مایوس ہوتے ہیں کہ کس طرح کی کتب کو ایوارڈس دیے جا رہے ہیں۔اس وجہ سے کتب بینی کا رجحان بھی مررہاہے اس طرف نہ صرف ادیبوں بلکہ ادبی تنظیموں اور ایوارڈس دینے والے اداروں کو احتیاط کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔
راقم السطور کی رائے میں عام قارئین کی رائے کے بعد کتب کو ایوارڈس کے لیے منتخب کرنا چاہیے تاکہ معیاری کتب ایوارڈ یافتہ کہلا سکیں۔ کتب پر ایوارڈس کے حوالے سے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ بہت زیادہ لاگت سے شائع ہونے والی کتب کے مقابلے میں کم قیمت اور معیاری کتب اکثر منتخب نہیں ہو پاتی ہیں جو کہ اُن ادیبوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو بہترین لکھ رہے ہیں اور قارئین سے مسلسل پزیرائی حاصل کر رہے ہیں لیکن کم قیمت اور غیر معروف ناشران سے کتب شائع کرانے کی وجہ سے ان کی کتب انعام کی حقدار نہیں ہوتی ہیں جو کہ بہت افسوس ناک امر ہے اس پر کچھ سوچنا چاہیے۔کتب پر ایوارڈ اُنھی کو ملنا چاہیے جو قارئین سے داد وصول کریں اور جن کا مواد معیاری ہو۔
اگرچہ پذیرائی اور ادبی ایوارڈس نہ ملنے سے کسی بھی ادیب کی ساکھ کم تر نہیں ہوتی ہے لیکن یہ قلم سے رشتہ جوڑے رکھنے میں اہم ترین کردار سرانجام دیتی ہیں اس لیے مصفانہ طریقہ کار اختیار کرکے حق داروں کو حق دینا چاہیے کہ ادب میں ناانصافی بے ادبی کہلائی جائے گی۔
ای میل zulfiqarali.bukhari@gmail.com