ڈھلتی شام کی ملگجی روشنی میں اچانک انجانا لمس اسے اپنی مرمری کلائ پر محسوس ہوا ۔۔۔۔۔۔۔اسے جھر جھری سی آگئی۔۔۔۔۔۔۔
ایک مدہم سرگوشی نے اسے پتھر کا مجسمہ بنا دیا ۔۔
’’ڈرو نہی ۔۔۔میں ہوں تمہارا غلام ندیم ‘‘۔۔۔
اور کلائی پر گرفت سخت ہو گئی ۔۔۔۔۔۔
بے بس سہمی زینت کی آنکھوں سے گرم گرم آنسو جھلک گۓ ۔۔۔۔نرم کلائ میں درد کی لہر اٹھی ۔۔۔۔۔۔
’’ہاتھ چھوڑیں۔۔۔۔ نہی تو شور مچاؤں کی‘‘۔
بمشکل یہ الفاظ اس کے کانپتے لبوں سے نکلے ۔۔۔۔
لحیم شحیم ندیم پیلے پیلے دانت نکالتا عین اس کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو گیا ۔
’’کر لو شوق پورا ۔۔۔۔تمہاری کون سنے گا ۔اس گھر کا اکلوتا داماد ہوں ‘ الٹا تمہیں یہاں سے دھکے دے کر نکالا جاۓ گا ۔”
دھان پان سی زینت اس پریشان کن تصور سے ہی کانپ گئ ۔خوف کی سنسنی اسے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں دوڑتی محسوس ہوئی
اس نے لجاہت بھرے لہجے میں کہا:
’’ندیم بھائی خدا کا واسطہ مجھ بر رحم کریں‘‘۔
بھائ کا لفظ سنتے ہی جیسے اس مردود کو بجلی کا جھٹکا لگا ‘ تیزی سے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا ‘ اور غرا کر بولا ،
’’خبردار جو آئندہ بھائی کہا منہ توڑ دوں گا تیرا‘‘۔
اتنے میں برآمدے کا دروازہ کھلنے کی آواز آئ اور سانڈھ نما وہ ہیولہ نیم تاریکی میں کہیں غائب ہو گیا !
*_______*______*_____*______*
لیاقت آباد نمبر ۲۱ کے قدیم محلے کی رہائشی “اماں جی “پورے علاقے کی آن بان اور شان تھیں۔ ‘ان کا اصل نام تو شاہدہ اکرم تھا پر عرصۀ دراز سے وہ جگت اماں جی ہی کے لقب سے پکاری جاتی تھیں۔
یوں تو انہوں نے زندگی کی پچاس بہاریں اپنے خاندنی ۱۸۰ گز کے دو منزلہ مکان میں گزاری تھیں ‘ پر مزاج کی دلیری اور طمطراق میں وہ “جھانسی کی رانی “سے کم نہ تھیں۔
ان کے شوہر جنید اکرم “جدی پشتی حلوائی تھے ۔زندگی نے زیادہ عرصہ وفا نہ کی اور شادی کےچند سال بعد چار بچے اور ایک دکان ترکے میں چھوڑ کر راہئ عدم سدھار گئے۔
کم عمری میں ہی بیوگی کے غم کے ساتھ بچوں اور دکان کی زمہ داریاں سنبھالنی پڑگئیں۔اللۀ نے غیر معمولی عقل اور سوجھ بوجھ عطا کر رکھی تھی ‘ اسی کی بدولت بچوں کو باپ بن کر بھی پالا اور گھر اور دکان کی نگہبان بن کر بھی دکھایا۔ دکان کے ہر چھوٹے بڑے لین دین کے معاملے اور انتظامی امور پر کڑی نظر رکھتیں ۔دن رات کڑی محنت کے نتیجے میں چھوٹی سی مٹھائی کی دکان دیکھتے ہی دیکھتے چند سالوں بعد ” اماں جی اینڈ سنز بیکرز اینڈ کنفیکشنرز ” جیسی شاندار بیکری میں تبدیل ہو گئ _کچھ عرصے کے بعد یکے بعد دیگرے بیمار بوڑھے ساس سسر کا بھی انتقال ہوگیا اور وہ خاندانی گھر کی بھی وارث بن گئیں۔
بلا شرکت غیرے اختیارات اور مال و دولت مل جائیں تو دماغ پر ان کا خمار چڑھ ہی جاتا ہے ۔سو اماں جی کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ۔ اماں جی کے حکم کا سکہ چلتا تھا ان کا ہر فیصلہ آخری فیصلہ ہوتا ‘ کسی کی مجال نہ تھی جو ان کے سامنے زبان کھولے ۔مزاج کی وہ چاہے کتنی سخت تھیں پر دل ان کا موم کی طرح نرم تھا اپنے غریب رشتے داروں اور ضرورت مندوں کی امداد کرتے نہ تھکتیں ۔پورا علاقہ ان کے دبنگ مزاج ‘فہم۔و فراست اور دریا دلی کے گن گاتا تھا۔
*_______*________*_______*________*
پڑھنے لکھنے کا تو برادری میں دستور ہی نہ تھا’ سو زرا سا قد نکالا تو ماں نے دکان کی طرف ہانک دیا ۔ بس چند ہی سالوں میں تینوں سپوت نظیر ‘ بشیر اور وحید اپنے باپ دادا کی طرح ماہر حلوائی بن چکے تھے۔
اکلوتی بیٹی ثمینہ کی شادی اپنی برادری کے دیکھے بھالے خاندانی لڑکے ندیم ملک “سے کر دی۔
ندیم ذات کا تو حلوائی تھا ‘ پر کچھ عرصہ پہلے اس نے کسی دوست کے مشورے پر پراپرٹی کے کاروبار میں پیسہ لگایا۔
شومئ قسمت اسی دوران شہر میں پراپرٹی کے کام میں سٹہ بازاری زوروں بر ہوئ اور ڈھیروں منافع اس کے ہاتھ لگا موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنےخاندانی پیشے کو خیر باد کہا اور کارو باری علاقے میں زاتی اسٹیٹ ایجنسی کھول لی ۔وہ دن اور آج کا دن ندیم حلوائ اب “سیٹھ ندیم ” کہلانے لگا تھا۔
سر پر نماز کی ٹوپی ، ہاتھوں میں تسبیح اور جھکی نظریں اسے دیکھ کر کوئ بھی اس کے نیچ اور گھٹیا ارادوں کے بارے میں جان نہی سکتا تھا۔چرب زبان اور چالاک ندیم مشکل سے مشکل دفتری کام چٹکی بجاتے حل کر دیا کرتا ۔ اماں جی فخر سے سب کو بتاتیں کہ میرے داماد سے سیکھو کتنی محنت اور سمجھداری سے ترقی کر رہا ہے‘۔
اماں جی کا من تو “کھرا سونا “تھا ‘ وہ اس نۓ دور کی منافقت اور دھوکے بازی کے ہتھکنڈوں سے ناواقف تھیں ۔اسی لیے انہیں اپنا داماد دنیا کا سب سے قابل اور دیانت دار انسان دکھائی دیتا تھا۔
ظرف سے بڑھ کر نعمت مل جائے تو وہ بھی لعنت بن جاتی ہے۔
ندیم بھی بہت سی نو دو لتیوں والی اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہوگیا۔ وقت کا پہیہ چلتا گیا اسی دوران ثمینہ کو اللہ نے دو جڑواں بیٹوں کی نعمت سے نوازا ۔”اماں جی “کے پاؤں خوشی کے مارے زمین پر نہ ٹک رہے تھے ۔ برسوں بعد اتنی بڑی خوشی ملنے پر خوب مٹھائیاں تقسیم ہوئیں۔
*______*________*_______*______*
زینت اماں جی کی یتیم بھتیجی تھی۔
باپ کے انتقال کے بعد پھوپھی نے سہارا دیا اور گھر کے تمام اخراجات اٹھائے۔زینت کے دونوں بھائیوں کو بھی اپنی بیکری کی ملازمت پر رکھا۔
زینت کے بے عیب حسن کو دیکھ کر بلا شبہ اسے ” گودڑی میں لعل” کہا جا سکتا تھا
زینت اپنی بیوہ ماں کی طرح کم گو اور” دبو تھی ۔اماں جی نے اپنے بڑے لڑکے نظیر کے لیۓ اسے منتخب کیا _
جب شادی ہو کر زینت اپنی پھوپھی کے گھر آئی تو سب سے ڈھیروں محبتیں اور توقیر پائی ۔نظیر بھی اس پر جان چھڑکتا تھا ‘ وہ بے حد خوش تھی ۔ بر اس کے سکون کو برباد کرنے والا اس گھر میں کوئ موجود تھا’۔۔۔۔۔۔۔ وہ خبیث نندوئی ندیم اور اس کی تعاقب کرتی حوس بھری نگاہیں اور زو معنی سرگوشیاں ۔ڈرپوک زینت یہ سب کس سے کہے ؟ کل کی آئ لڑکی کی بات پر کون یقین کرے گا ؟ ڈھونگی ندیم نے تو شرافت کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا ” اور اماں جی کے سامنے تو ویسے بھی زینت کی زبان گونگی ہو جاتی تھی ۔اس نے کئی بار سوچا کے نظیر سے بات کرے پرسدا کی بزدل ز ینت کچھ بھی نہ کہ پائی۔
*_________*________*______*
اللۀ نے ان کی دعائیں سن لیں ‘ برسوں کی آرزو پوری ہونے والی تھی۔لاکھوں لوگوں میں سے ان کی حج درخواست منظور ہوئی ۔اماں جی اور نظیر نے رخت سفر باندھا۔
سب بے حد خوش تھے پر جوں جوں ان کی روانگی کی تاریخ قریب آرہی تھی زینت کا دل بیٹھا جا رہا تھا ۔وہ جانتی تھی کہ ندیم جیسا گھٹیا شخص اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی ضرور کوشش کرے گااور اسے چین سے رہنے نہ دے گا بر وہ سب کچھ بتاتی تو تب بھی کوئی اس کی بات پر یقین نہ کرتا ۔بس وہ اللہ سے دن رات اپنی حفاظت کے لیے دعائیں مانگ رہی تھی اس سے زیادہ وہ اور کچھ کر بھی نہ سکتی تھی۔ *______*_______*_______*_____*
اماں جی نے دست شفقت اس کے سر پر رکھتے ہوئے کہا
’’ندیم بیٹے ہمارے جانے کے بعد تم ہی اس گھر کے بڑے ہو ‘ میں گھر اور کاروبار تمہارے حوالے کر کے جا رہی ہوں ، اسے پوری زمہ داری سے سنبھالنا ‘‘۔
یہ کہتے ہوے اماں جی نے وکیل سے بنوائے ” پاور أف اٹارنی” کے کاغزات ندیم کے ہاتھ میں تھما دیے۔
لالچی ندیم بے حد مسرور تھ۔۔۔دل ہی دل میں سوچنے لگا ‘ چاروں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں “یہی تو میں چاہتا تھا “
ائیر پورٹ سے واپسی پر رشید اور وحید بیکری کی طرف چلے دیئے کیونکہ دکان کھلنے کا وقت ہوچکا تھا
گھر کی صاف صفای کروا کر ز ینت ہانڈی روٹی میں مصروف تھی _اتنے میں دروازے پر دستک ہوئ ‘درو ازہ کھولا تو سامنے ندیم کھڑا تھا۔خوف سے اسکا رنگ اڑ گیا ۔۔۔۔
’’ندیم بھائ آپ ۔۔۔۔۔۔آپ۔۔۔ کیوں آئے ہیں ؟؟؟؟”
ڈر کے مارے الفاظ اس کے حلق میں اٹک گئے۔
خباثت سے ہنستے ہوۓ وہ بولا
’’تو کیا اب یہاں آنے کے لیۓ مجھے تم سے اجازت لینی پڑے گی ؟؟؟ سنا نہی تھا تم نے اماں جی جاتے ہوۓ تم سب کو میرے حوالے کر کے گئی ہیں‘‘۔
اس کے الفاظ سن کر بے چاری زینت کی رہی سہی جان بھی نکل گئی۔
ا تنے میں کمرے سے موبائل کی گھنٹی بجنے کی آواز آئی۔
زینت نےموقع غنیمت جانا اور کمرے کی۔طرف لپکی ۔۔۔۔۔۔
ندیم بھی جھٹ اس کے پیجھے اندر آگیا ‘ اسے کمرے میں دیکھ کر موبائل زینت کےہاتھوں سے چھوٹ کر نیچے جا گرا ۔۔۔۔۔وہ خوف سے تھر تھر کانپ رہی تھی۔
’’تم تو خواہ مخواہ مجھ سے ڈرتی ہو ۔۔۔میں کوئ جن بھوت ہوں کیا ؟
وہ نہ جانے کیا کیا بولتا رہا زینت کو کچھ سنای نہ دے رہا تھا ۔۔۔تھوڑی ہمت جتا کر بولی
ندیم بھائی آپ تو اس گھر کے بڑے ہیں اماں جی أپ پر بھروسا کر کے سب کچھ آپ کے سپرد کر کے گئی ہیں”
ندیم نے شیطانی قہقہہ لگایا اور بولا
’’اماں جی کا دور ختم ہوا ، اب میرا دور شروع ہونے والا ہے ‘ جلد ہی سب کچھ میں اپنے نام ٹرانسفر کروا لوں گا ۔میرے لیۓ یہ سب دائیں ہاتھ کا کام ہے‘‘۔
زینت اس مکار کے ارادے سن کر ششدر تھی _ اسے اپنی بے بسی پر رونا آرہا تھا کہ اب اس دھوکے باز سے اسے کون بچائے گا ؟؟؟۔
عین اسی وقت کمرے کا دروازہ کھلا اور اماں جی اور نظیر کمرے میں داخل ہوئے
انہیں دیکھتے ہی ندیم کی سٹی گم ہو گئی ۔بد حواسی میں ہکلاتے ہوئےبولا
’’اماں جی ۔۔۔۔۔آپ ۔۔۔۔۔۔۔آپ تو حج کے لیے گئی تھیں‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
’’ہاں ہم چلے گئے ہوتے پر شدید سیلاب کی وجہ سے جدہ کی ساری پروازیں منسوخ ہو گئی ۔۔۔۔۔اور میرے رب کو تمہارا اصلی گھناؤنا چہرہ بھی ہمیں دکھانا تھا اسی لیۓ ہم۔رک گے “زینت شوہر کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔۔۔۔۔
مکار ندیم پینترا بدل کر بولا
’’اماں جی مجھے زینت نے خود بلایا تھا ۔۔۔۔اس نے کہا تھا کہ ضروری کام ہے ندیم بھائی اسی لیے آیا تھا۔
اماں جی کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا ۔
’’بد زات خبر دار جو میری معصوم بہو کے بارے میں ایک لفظ بھی منہ سے نکالا ۔۔زینت کے ہاتھ سے موبائل گرا تو کھلا رہ گیا ۔۔۔وہ کال میں نے کی تھی فلائٹ کے بارے میں بتانے کے لیۓ ۔۔تمہاری جعلسازی کی سب باتیں نظیر نے ریکارڑ کر لی ہیں ۔اب شرافت سے پاور کے کاغزات واپس کر دو نہی تو تمہاری ریکارڑنگ تھانے پہننچا دوں گی ‘پھر تم سارے جگ میں رسوا ہو جاؤ گے۔‘‘
اماں جی کی گرجدار آواز میں دھمکی سن کر ندیم بھیگی بلی بن کر وہاں سے رفو چکر ہوگیا۔
*________*________*__________*
اماں جی ‘خیالات کے ہجوم میں گھری ہوئی تھیں
“دل کا چور پکڑنا کتنا مشکل ہے ‘ اجلے تن کے پیچھے میلے من کو کھوجنا کسقدر کٹھن ہے ‘ شائید غلطی میری بھی تھی’ میں نے سوچا نہی تھا کہ جب اپنوں کے سامنے حد ادب اور تعظیم کی اونچی اونچی فصیلیں کھڑی کر دی جائیں تو وہ دل کی باتیں دل میں ہی دفن کر دیتے ہیں اور پھران میں ایسے ہی ناسور پنپنے لگتے ہیں ۔۔ . اس ایک ہی لمحے میں اماں جی نے ادراک کی کئی منزلیں پار کر لیں _پچاس سالہ پرانے تصوراتی محل میں شعور و آگہی کے نۓ دریچے کھل گۓ ۔
کچھ عرصے بعد سب کچھ بدل چکا تھا ۔ ندیم کی جھکی نظریں مزید جھک چکی تھیں ۔۔۔اب وہ مصروفیت کا بہانہ بنا کر سسرال سے دور ہی رہتا ۔۔ خدا کے خوف سے نہ سہی اپنی برادری کے سامنے ناک کٹ جانے کے خوف سے وہ سدھر گیا ۔۔۔حج سے واپسی کے بعد سے اماں جی کا زیادہ وقت عبادت اور اپنے بچوں کے ساتھ گھر میں گزرتا ‘ دکان کے معاملات اپنے بیٹوں کو سونپ کرانہوں نے اپنے کندھوں کا بہت بھاری فرض ادا کر دیا اور سکھ کا سانس لیا۔
زینت اب ایک پیارے سے بیٹے کی ماں بن چکی تھی ۔۔۔زندگی چمکتےماہتاب سی روشن اور پر سکون تھی ۔۔اب شام کی ملگجنی تاریکی میں اسے کسی ابھرتے ہیولے کے دکھنے کا خوف نہی رہا تھا “۔۔۔۔