Urdu News

آزادی کے پچہتر سال کے بعد

انتخاب عالم پاشا ندوی

انتخاب عالم پاشا ندوی

یہ کہہ رہی ہے اشاروں میں گردش گردوں

کہ جلد ہم کوئی سخت انقلاب دیکھیں گے

پندرہ اگست کا دن ملک عزیز ہندوستان کی تاریخ کا سنہرا اور عظیم تاریخی دن ہے، اس طور پر کہ تین چوتھائی صدی قبل آج ہی کے دن ہمارے اس عظیم ملک کو انگریزوں کے پنجۂ ظلم و استبداد سے آزادی کا پروانہ عطا ہوا تھا، اسی دن باشندگان ہند نے اپنے شہداء کی قربانیوں کا ثمرہ آزادی کی شکل میں دیکھا تھا، مجاہدین کی طویل جد وجہد بار آور ہوئی تھی، قائدین کی کوششیں رنگ لائیں تھیں، جن سب کا جشن وطن کے باسیوں نے ملک کے جھنڈے کو فضا میں بلند کر کے اور قومی یکجہتی کے گیت گا کر منایا تھا، اور بلا اختلافِ مذہب و ملت ایک دوسرے کے گلے لگ کر خوشیوں کے ترانے گائے تھے، جس کے بول کچھ یوں تھے"ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی ؛ آپس میں ہیں سب بھائی بھائی"۔

وہ وقت تھا جب یہ بول اپنے حقیقی معنوں کے ساتھ ادا ہوتے تھے، مگر چشم فلک کو یہ یکجہتی پسند نہیں آئی، مذہب و ملت کا یہ اتحاد راس نہ آیا۔

انگریزوں نے یہ ملک چھوڑ تو دیا، مگر شیطان کی طرح شوشہ چھوڑ گئے اور اختلاف کا مضبوط و توانا بیج بو گئے، جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی گیا اور فسادات نے اس میں آگ پانی کا کام کیا۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ بیج آج تناور درخت بن چکا ہے، جس کا پھل معصوموں کے قتل کی صورت ملک میں بکثرت پایا جاتا ہے۔

دوسری طرف آزادی کا وہ خوبصورت درخت جو ہمارے شہداء کے خون سے سینچا گیا تھا، اتنے سال گزرنے کے بعد بھی آج تک شجر سایہ دار نہ ہو سکا ہے، اور کیوں کر ہو جب کہ اختلافات و فسادات کی آندھی ہر موسم میں اپنے جوبن پر رہتی ہے، جب بھی موقع ملتا ہے شر پسند عناصر معصوم و بےگناہ کے خون کی ہولی کھیل جاتے ہیں، اب تو ملک زادہ منظور مرحوم کا یہ شعر صد  فیصد درست ثابت ہو رہا ہے کہ

 دیکھو گے تو ہر موڑ پر مل جائیں گی لاشیں

 ڈھونڈو گے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا

بلکہ اس سے ایک قدم آگے ملک کا حال جناب عامر  عثمانی کی زبانی یہ ہو گیا ہے کہ

جس نے لوٹا تھا اس کو سلامی ملی ہم لٹے ہم کو ملزم بتایا گیا

مست آنکھوں پہ الزام آیا نہیں تہمتیں ہم پہ لگتی رہیں بن پئے

یقیناً آج ہمارے بزرگوں کا آزادی کا خواب جسے پورا کرنے کی انہوں نے ہر ممکن کوششیں کی تھیں، جانوں کے نذرانے پیش کیے تھے،طویل جد و جہد اور قربانی کے بعد آزادی کی حسین تعبیر کی صورت بدل کر گئے تھے، آج وہ حسیں تعبیر ڈراؤنی تصویر بن گئی ہے، ملک کا گوشہ گوشہ ظلم وجبر سے کراہ رہا ہے، اس کی سسکیاں ہر سلیم الطبع اور ذی ہوش شخص سن سکتا ہے،  آج علامہ اقبال کا وہ ہندوستان کہ

ع "ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا"

کہیں کھو گیا ہے، جسے اجمل سلطان پوری یوں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ

میرے بچپن کا ہندوستان

نہ بنگلہ دیش نہ پاکستان

میری آشا میرا ارمان

وہ پورا پورا ہندوستان

میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں، میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں

آج حفیظ میرٹھی کا شعر ہر محب وطن اور مخصوص طبقہ کی زبان پر ہے کہ

ہم بھی تو انسان ہیں آخر ہم سے یہ نفرت کیسی

سب سے لپٹ کر ملنے والو ہم سے کیوں کتراتے ہو

پورے ملک میں نفرت کا بازار گرم ہے، ہر فرد دوسرے سے بدظن ہے بلکہ شدید نفرت میں مبتلا ہے جس سے ترقی کی راہیں مسدود ہیں، سچ کہا تھا کسی نے کہ

زہر بھرا ہے سینوں میں باتوں میں گل افشانی ہے

صاف نہیں جب دل ہی اپنا بربادی تو آنی ہے

سینوں میں جو نفرتوں کا زہر بھرا گیا ہے اور جس کے نتیجے میں ایسی بربادی آئی ہے کہ سیاسی و جغرافیائی کے ساتھ ساتھ معاشرتی اعتبار سے بھی  ملک کے حصے بخرے ہو گئے ہیں ۔

جو امیر ہے وہ مزید امیری کی سیڑھیاں چڑھ رہا ہے اور جو بدقسمتی سے غریب ہے وہ اور غریبی کے دلدل میں دھنستا جا رہا ہے، ہر امیر اپنے کو فرعونِ وقت سمجھتا ہے اگر خوش بختی سے امارت مل جائے تو وہ  'انا ربکم الاعلی' کہنے سے بھی نہیں کتراتا ، بلکہ زبانِ حال سے بارہا اس کا اظہار بھی کرتا ہے۔ سچ ہے کہ

 جن کے آنگن میں امیری کا شجر لگتا ہے

ان کا ہر عیب زمانے کو ہنر لگتا ہے

یہی سب کچھ آج ہمارے جسماً آزاد اور ذہناً غلام ملک ہندوستان میں ہو رہا ہے ۔

یہاں" قاتل ہی محافظ ہے قاتل ہی سپاہی ہے"

ہر سو اک آگ لگی ہے جو کبھی بستیاں جلاتی ہے تو کبھی سادہ لوح عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کرتی ہے اور اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو خاکستر کر دیتی ہے، ایسے ہی حالات کی عکس بندی جناب نواز دیوبندی نے اپنی ایک نظم میں کی ہے اور ملک کے ہر باشندہ کو لمحہء فکر دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ

ٹیپو کا ارمان جلاہے

باپو کا احسان جلا ہے

گیتا اور قرآن جلا ہے

 سچ یہ ہے انسان جلا ہے

ایک قیامت در پر ہوگی، موت ہمارے سر پر ہوگی

تب سوچیں گے ؟ سو چو! آخر کب سوچیں گے

مختصر یہ کہ اگر ہم اب بھی نہ سمجھے، اختلافات کے درخت کو اکھاڑ کر نہ پھینکا اور نفرت کی آندھی کا رخ نہ موڑا تو وہ دن دور نہیں جب شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کا یہ شعر سچ ہو جائے کہ

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو

تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

جامعہ خلفاء راشدین مادھو پارہ پورنیہ، بہار 843301

Recommended