Urdu News

علی احمد جلیلیؔ: کچھ یادیں،کچھ باتیں

شاعرعلی احمد جلیلیؔ

اعجاز زیڈ ایچ

آج – 22؍جون 1921شاعری کی کلاسیکی روایت کے امین، شائستہ غزل گو،دکن کے ممتاز اور معروف شاعرعلی احمد جلیلیؔ صاحب کا یومِ ولادت ہے۔

علی احمد نام اور جلیلیؔ تخلص تھا۔ ۲۲؍جون ۱۹۲۱ کو حیدرآباد، دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ جلیلؔ مانک پوری کے فرزند تھے۔ ایم اے عثمانیہ یونیورسٹی سے کیا۔ اردو کے لکچرر رہے۔ حیدرآباد ، دکن میں ریٹائر زندگی گزار رہے تھے۔ ۱۳؍اپریل ۲۰۰۵ کو حیدرآباد،دکن میں انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں

’نقش قدم‘،’شہرتمنا‘،’اندھیرے اجالے‘(شعری مجموعے)’نئی غزل میں منفی رجحانات‘ (تنقید) ’مکاتیب جلیل‘ (تدوین) ’انتخاب کلام جلیل‘ (تدوین) ’ کائناتِ جلیل‘، (تدوین) ’القرآن‘ (ترجمہ)۔

بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:121

معروف شاعر علی احمد جلیلیؔ کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت۔۔۔

آندھیوں کا کام چلنا ہے غرض اس سے نہیں

پیڑ پر پتا رہے گا یا جدا ہو جائے گا

اس شجر کے سائے میں بیٹھا ہوں میں

جس کی شاخوں پر کوئی پتا نہیں

ایک تحریر جو اس کے ہاتھوں کی تھی

بات وہ مجھ سے کرتی رہی رات بھر

بن رہے ہیں سطح دل پر دائرے

تم نے تو پتھر کوئی پھینکا نہیں

پھرتا ہوں اپنا نقشِ قدم ڈھونڈتا ہوا

لے کر چراغ ہاتھ میں وہ بھی بجھا ہوا

دور تک دل میں دکھائی نہیں دیتا کوئی

ایسے ویرانے میں اب کس کو صدا دی جائے

روکے سے کہیں حادثۂ وقت رکا ہے

شعلوں سے بچا شہر تو شبنم سے جلا ہے

لائی ہے کس مقام پہ یہ زندگی مجھے

محسوس ہو رہی ہے خود اپنی کمی مجھے

غم سے منسوب کروں درد کا رشتہ دے دوں

زندگی آ تجھے جینے کا سلیقہ دے دوں

نشیمن ہی کے لٹ جانے کا غم ہوتا تو کیا غم تھا

یہاں تو بیچنے والے نے گلشن بیچ ڈالا ہے

کاٹی ہے غم کی رات بڑے احترام سے

اکثر بجھا دیا ہے چراغوں کو شام سے

کناروں سے مجھے اے ناخداؤ دور ہی رکھو

وہاں لے کر چلو طوفاں جہاں سے اٹھنے والا ہے

کیا اسی واسطے سینچا تھا لہو سے اپنے

جب سنور جائے چمن آگ لگا دی جائے

ہم نے دیکھا ہے زمانے کا بدلنا لیکن

ان کے بدلے ہوئے تیور نہیں دیکھے جاتے

یہ خون رنگ چمن میں بدل بھی سکتا ہے

ذرا ٹھہر کہ بدل جائیں گے یہ منظر بھی

Recommended