Urdu News

الف سے انسانیت

مضمون نگار: آفتاب سکندر

آفتاب سکندر

الف سے اللہ بھی ہے۔ الف سے انسان بھی ہے۔ جہاں انسان تھا وہیں تصورِ اللہ کا وجود ہوا۔ یہاں عربی لغت کا بکھیڑا ہے سو انسان عربی تھا۔اللہ عربی زبان کا لفظ ہے۔

انسان لفظ اُنس سے بنا ہے مطلب پیار، محبت، خلوص، ہمدردی ہونا. دکھ ساجھے کرلینا۔ انسان کے دائرے میں آنے کے لیے دکھ، درد،تکلیف بانٹنے پڑیں گے۔

 انسانیت کا علمبردار بننے کے لیے الفت، محنت، یگانگت، خلوص سب کچھ کے لیے وقف ہونا پڑے گا۔ رومانویت کا اصل مطلب کسی کا دردری ہونا ہے۔ اس لیے بہرصورت کسی کا دردری بننا پڑے گا۔

 کسی کے درد کو اپنا درد سمجھنا پڑے گا۔ الف انسانیت سکھاتی ہے۔ منزل ہمیشہ انس والا انسان بننے کی رکھو یوں ڈوپامین کا اخراج ہوگا جو فرحت بخش بھی ہوگا۔

 صحت بخش بھی ہوگا۔ اس دوڑ میں نہ دوڑو جو دوڑ تمھیں اپنے سے بیگانہ کرکے نہ یگانوں میں رہنے دے۔ نہ بیگانوں میں رہنے دے۔دوڑنا ہے تو الف سے انسانیت والی دوڑ میں دوڑو کہ تم امر بھی تو الف سے ایدھی بن کر امر ہے۔ پھر تمہارا ہر ثمر امر ہوگا انس والے انساں کی ایماء پر۔

ایک ہی گھر نے دو چراغ بہ یک وقت دئیے. دونوں نے ایک ہی سائے میں تعلیم حاصل کی۔ایک مادرِ علمی سے روشن دو متعلم ہوئے۔دونوں نامور ہوئے۔ایک سائنس دان بن گیا۔ دوسرا سیاست دان بن گیا۔

دونوں دان کرنے والے بنے۔ایک نے پنسلین دریافت کی۔ لاکھوں جانوں کا محافظ بن کر سامنے آیا۔ دوسرا وزیراعظم بھی رہا۔ جنگ عظیم میں لاکھوں جانوں کے ضیاع کا حصہ بنا۔دونوں امر ہوئے۔ دونوں دان کرگئے۔ مگر جس نے جو دان کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔

سروری کی تمنا غلط نہیں۔راہِ سروری کیا ہے یہ غلط، درست کا معیار تعین کرتی ہے۔

آج بھی کروڑوں لوگ جنازہ پڑھتے ہیں مگر کس کا جو جہالت دے کر گیا۔ جو خود کو امر تو کرگیا مگر جس راہ پر وہ چلا گیا۔لوگ ایک دوسرے پر الزام لگا کر اپنے مقصد کے لئے اگلے بندے کو قتل کر دیں گے۔

 جو انسانیت کی شمع روشن کرنے والا تھا اس کے جنازے میں لوگ کم تھے۔ کیونکہ وہ دشوار گزار راستے سے عافیت بتاتا تھا جو سہل پسندی کی راہ بتاتا تھا ایک قتل سے غازی بن جاؤ۔ پھانسی پر شہید بن جاؤ۔تمہارا مزار بنے گا کرنا کچھ نہیں بس ایک گستاخ ڈھونڈ کر قتل کر دینا ہے۔ دو راہیں ہیں الف سے ایدھی والی اور دوسری غازی والی۔

تیرا آئینہ بچا کر رکھنے والا نہیں ہے بلکہ شکستہ حال ہو تو نگاہ آئینہ ساز میں عزیز تر ہوگا۔ شکستہ حال کب ہوگا؟ شکستہ حال تب ہوگا جب دوسرا کا پُرسان حال ہوگا۔ آدم سے آدمی نہیں ہوگا بلکہ انس سے انسان ہوگا۔

 آدم تک محدود نہیں بلکہ سب کے لیے وقف شدہ انسان ہوگا۔ یہاں راز کی بات ہے. بچا بچا کر رکھا گیا خود تک محدود رہے گا۔ دوسروں کے لیے وقف شدہ شکستہ ہو گا وہ عزیز تر بنے گا۔

Recommended