Urdu News

اللہ کے محبوب بندے

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

اللہ رب العزت رحمن اور رحیم ہے، اس رحمت کی وجہ سے اللہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے، بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر ستر ماؤں سے زیادہ مہربان ہے،یہ ستر کا عدد بھی اصلاً بندوں کو سمجھانے کے لئے ہے

ورنہ صحیح یہی ہے کہ اللہ کی رحمتیں ہر چیز کو محیط ہیں’’وَ رَحْمتِی وَسِعَتْ کُلَّ شَیئ‘‘(الاعراف:156) اللہ فرماتے ہیں میری رحمت ہر چیز سے وسیع ہے اور اس وسعت کا دائرہ تمام مخلوقات کو اپنے گھیرے میں لئے ہوا ہے۔

اللہ کی رحمت جب بندے پر متوجہ ہوتی ہے تو وہ اللہ کا محبوب ہوجاتا ہے، لیکن اللہ کے محبوب بننے کے لئے پہلے خود کو اللہ کے حوالہ کردینا ہوتا ہے۔’’من کان للّٰہ کان اللّٰہ لہ‘‘ جو اللہ کا ہوگیا، اللہ اس کا ہوجاتا ہے۔

قرآن کریم اور احادیث میں اللہ کے محبوب بندوں کے صفات ذکر کیے گئے ہیں، اگر ہم اللہ کے محبوب بننا چاہتے ہیں تو وہ صفات ہمیں اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے؛کیوں کہ اللہ نے اعلان کیا ہے کہ میں ان صفات کے حاملین کو پسند کرتا ہوں۔

ان میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ بندہ نے جو غلطیاں کی ہیں، احکام خدا اور رسول کی ان دیکھی کرکے ’’رب مانی‘‘ کے بجائے ’’من مانی‘‘ زندگی گزاری ہے، اس سے آئندہ کے عزم کے ساتھ اللہ رب العزت کے دربار میں توبہ کرے۔

اللہ کے سامنے گرگرائے، معافی مانگے،اس لیے کہ اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں ’’اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوابِینَ و یُحِبُّ المُتَطَھِّرِیْن‘‘(سورۃ البقرہ:223) حدیث پاک میں ہے ’’التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ‘‘(رواہ ابن ماجہ عن عبد اللہ بن مسعود)گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔

بلکہ اللہ رب العزت نے اس سے اوپر کی ایک بات بتائی کہ توبہ کرنے کے بعد اللہ اس کے سیئات کو حسنات میں بدل دیتے ہیں بشرطیکہ توبہ کے بعد وہ ایمان اور عمل صالح کی راہ پر گامزن رہے ارشاد ربانی ہے: ’’اِلّاَ مَن تَابَ و اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلاً صَالِحاً فاولٰئکَ یبدلُ اللّٰہُ سَیِّئاتِہِمْ حَسَنَات وکانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْماً‘‘(سورۃ الفرقان:70)اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اسلام سابقہ تمام گناہوں کو ختم کردیتا ہے تو ایمان والوں کے حق میں تویہ بدرجہ اولیٰ ہوگا،توبہ کے ساتھ روحانی و جسمانی پاکیزگی بھی ضروری ہے۔

اللہ پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتے ہیں، بعض روایتوں میں طہارت اور نظافت کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے،یہ پاکیزگی روحانی بھی ہو یعنی ایمان مفصل میں جن امور اللہ، رسول، فرشتے، آسمانی کتاب، اچھی بُری تقدیر اور بعث بعد الموت پر ایمان و یقین رکھنا ضروری ہے، اس پر یقین بھی رکھتا ہو۔

اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتا ہو، یہ ذہنی اور روحانی پاکیزگی ہے، اس کے ساتھ جسم، لباس اور جگہ وغیرہ کو بھی پاک رکھتا ہو یہ ظاہری پاکیزگی ہے۔ اللہ تعالیٰ پاک رہنے والوں سے بھی محبت کرتے ہیں اور اسے محبوب رکھتے ہیں۔

توبہ اور پاکیزگی کے ساتھ اللہ پر توکل، اعتماد اور بھروسہ بھی بڑی چیز ہے اور اللہ جن بندوں کو محبوب رکھتے ہیں ان میں توکل کی صفت پائی جانی چاہیے اگر اللہ پر توکل نہ ہو تو بندہ اللہ کا محبوب نہیں بن سکتا، اللہ رب العزت کا ارشاد’’انَّ اللّٰہَ یُحبُّ المُتَوکِّلِین‘‘(سورہ آل عمران:159) اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔

ایک جگہ ارشاد ہے

’’وَ مَنْ یَّتَوَکَّلَ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہ‘‘(سورۃ الطلاق:03)توکل اسباب سے قطع تعلق کا نام نہیں، اسباب اختیار کرنے کے ساتھ نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے یہ توکل ہے،حدیث میں اس کی مثال یہ دی گئی ہے کہ اونٹ کے پاؤں میں رسے باندھو، پھر اللہ پر بھروسہ کرو، حصول رزق کے لیے اسباب اختیار کیے جائیں پھر اللہ پر یقین رکھا جائے کہ کھلانے والی ذات اللہ کی ہے، دوا علاج پر توجہ دیں اور شفایابی کے لیے اللہ پر بھروسہ کیا جائے، مؤثر اصلی دوا علاج کو نہ سمجھا جائے۔

مسائل، مصائب، مشقتیں، فتنے اور آزمائش پر صبر کیا جائے، صبر صرف آہ و فغاں، چاک گریبانی اور سینہ کوبی سے پرہیز کا نام نہیں، صبر، تحمل اور برداشت کا نام ہے، برداشت کے ساتھ اپنے صحیح موقف پر جمنے کا نام ہے، اسی لئے اللہ ان بندوں سے محبت کرتے ہیں جو صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے، پریشانیوں کو من جانب اللہ مان کر راضی برضائے الٰہی رہتے ہیں۔

یہ کام آسان نہیں ہے، لیکن اللہ نے نماز کے ساتھ استعانت کا ایک طریقہ صبر بھی بتایا ہے اور جو اس کی کسوٹی پر پورا اتر جاتا ہے اللہ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں’’وَ اللّٰہَ یُحِبُّ الصَّابِرِیْن‘‘ (آل عمران:146) کا یہی مفہوم ہے۔ایک جگہ ارشاد فرمایا: اللہ اس کے ساتھ ہوجاتے ہیں ’’انَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْن‘‘ (سورۃ البقرۃ:146)

توبہ، صبر، توکل، طہارت کے ساتھ بندہ کو اللہ رب العزت سے ڈرنے والا بھی ہونا چاہیے اللہ کا ڈر، اللہ کا خوف اور اس کی خشیت یہ ماسٹر کی(Mastar Key) اور شاہ کلید ہے جب کسی کے دل کے اندر پیدا ہوجائے تو اس کے دل کی دنیا بدل جاتی ہے اس کے سوچنے، جینے، معیشت، معاشرت سب میں ایک ایسی تبدیلی پیداہوتی ہے جو کھلی آنکھوں سے دیکھی جاسکتی ہے۔

تقویٰ کس طرح حاصل ہو اس کے لئے مختلف عبادتیں ہمیں دی گئی ہیں اور ان کا مقصد لَعَلَّکُم تَتَّقُوْن تاکہ تم متقی ہوجاؤ بتایا گیا، یہ اتنی اہم چیز ہے کہ اللہ رب العزت نے اس جملہ کو قرآن کریم میں چھ بار ذکر کیا ہے جن میں سے چار بار سورۃ البقرۃ ہی میں ہے۔جب انسان کے دل میں اللہ کا خوف پیدا ہوجاتا ہے تو اس کی زندگی،احکام و مرضیات الٰہی اور ہدایت نبوی کے تابع ہوجاتی ہے۔

جب بندہ اس مقام کو پالیتا ہے تو اللہ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ’’اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ المُتَّقِیْن‘‘ (سورۃ التوبۃ:04)میں یہی بات کہی گئی ہے۔ایک جگہ فرمایا کہ جو اپنا وعدہ پورا کرے، پرہیزگاری اختیار کرے تو بے شک اللہ پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے ’’فَاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ المُتَّقِیْن‘‘ (سورہ آل عمران:76)

ان اوصاف کے حاملین میں جوایک خاص صفت پیدا ہو جاتی ہے، ان میں ظلم و جور اور نا انصافی سے گریز بھی شامل ہے۔ وہ ظلم نہیں کرتا اور انصاف کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہتا ہے۔

چاہے یہ انصاف خود اس کی ذات، اس کے والدین اور اعز و اقرباء کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اسے کسی قوم سے عداوت اور دشمنی ناانصافی پر نہیں ابھارتی وہ عدل کو تقویٰ کا لازمی حصہ سمجھتا ہے۔ ایسے لوگ مُقْسِطْ کہے جاتے ہیں اور اللہ رب العزت کاارشاد ہے ’’اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْن ‘‘(الحجرات:9، الممتحنہ:8)

اللہ کے محبوب بندوں میں ایک صفت احسان کی بھی پائی جاتی ہے، مختلف مواقع پر انسانی ضروریات کی تکمیل بغیر کسی مدح و ستائش اور صلہ کی امید کے احسان کی ایک قسم ہے، قرآن کریم میں غصہ کو پی جانے اور بندوں کو معاف کرنے کے ذکر کے بعد اللہ رب العزت

نے ’’وَاَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰہ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْن‘‘(سورۃ البقرۃ:97) کا اعلان کیا اس کا مطلب ہے کہ جب کسی پر غصہ آجائے اور بندہ اس کو معاف کردے تو یہ بھی صفت احسان ہے اور اللہ محسنین کو پسند کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ان بندوں سے بھی محبت کرتا ہے جو اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے اللہ کے راستے میں اپنے جان و مال کی پرواہ کیے بغیر نکل کھڑے ہوتے ہیں اور ان کی صفیں شیشہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہوتی ہیں’’اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الذِیْنَ یُقاتِلْوْنَ فِی سَبِیْلہٖ صَفًّا کانَّہُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْص‘‘ (الصف:04)

اللہ رب العزت کے محبوب بننے کے لیے احادیث میں بھی کئی صفات کا ذکر ہے، یہ مثبت اوصاف ہیں،جن کا ذکر یہاں کیا گیا ہے،بعض اوصاف وہ ہیں جو اللہ کے نزدیک بندوں کو مبغوض بنادیتے ہیں، قرآن کریم میں ان اوصاف کا ذکر لایحب کے ذریعہ کیاگیا ہے، ان کا ذکر پھر کبھی، فی الوقت تو مثبت اوصاف کو اپناکر اللہ کے محبوب بننے کی کوشش کی جائے۔

Recommended