ذکی طارق، بارہ بنکوی
ذکی طارق کی شاعری ان کی دِلی کیفیات اور رومان کی گل پوش و گل افروز وادیوں کے سفر کی منظوم خود نوشت ہی نہیں بلکہ وہ عصری معاشرت کے نشیب و فراز اس کی زبوں حالی، مسائل اور رجحانات و محرکات کا منظر نامہ پیش کرتے ہوئے اپنے عہد کی سچّائیوں کی آئینہ داری اور ترجمانی کا فریضہ بھی بخوبی انجام دیتی ہے۔
ان کے اشعار میں تہذیبی زوال ،مردہ ضمیری ،بے حسی، طبقاتی کشمکش ،دہشت گردی ،رِشتوں کی لاتعلقی ، ظلم و ستم ،جبر و استبداد ،عدم تحفظ اور عدم انصاف کی جھلکیاں صاف طور پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ انھو ں نے نہ صرف متنوع زمینیں خلق کی ہیں بلکہ ان میں فکر و خیال کے گلستاں آباد کرکے ان میں معنی کے گلاب کھلائے اور مہکائے ہیں(ادارہ)
( الوداع اےماہِ رمضان الوداع )
تقویٰ و ایمان کی جان الوداع
الوداع اے ماہِ رمضان الوداع
الوداع اے ماہِ رمضان الوداع
ساتھ میں تیرے تھیں آئیں رحمتیں
اے حسیں انعامِ رحمان الوداع
الوداع اے ماہِ رمضان الوداع
زندگی تجھ سے جو رونق بار ہے
اب یہ ہو جائے گی سنسان الوداع
الوداع اے ماہِ رمضان الوداع
تیس دن کا اک مہینہ ہوکے اے
سال بھر کے شاہ و سلطان الوداع
الوداع اے ماہِ رمضان الوداع
دیکھ تو رخصت پہ تیری کس قدر
اہلِ ایماں ہیں پریشان الوداع
الوداع اے ماہِ رمضان الوداع
برکتیں ہی برکتیں تھیں تیرے ساتھ
قاسمِ فیضانِ قرآن الوداع
الوداع اے ماہِ رمضان الوداع
جا مگر تیرا رہے گا انتظار
اے مرے پاکیزہ مہمان الوداع
الوداع اے ماہِ رمضان الوداع
تیرے دم سے جو بہت آباد ہے
ہوگی کل یہ بزم ویران الوداع
الوداع اے ماہِ رمضان الوداع