ذوالفقار علی بخاری، پاکستان
دورجدید’’ مخزن‘‘قائد اعظم لائبریری کا ادبی مجلہ ہے ۔اسے پڑھ کر بہت کچھ سمجھنے کا موقع ملاہے اورخوشی ہوئی ہے کہ ہمارے ہاں تحقیق کرنے والوں کی کمی نہیں ہے جو عمدہ موضوعات پر بہترین کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔اس مجلے کا نہ صرف مواد معیاری ہے بلکہ طباعت بھی عمدہ ہوئی ہے جو کہ قابل مسرت ہے کہ سرکاری سطح پر اعلیٰ کام ہو رہا ہے۔
اس شمارے کے اداریے میں ڈاکٹر تحسین فراقی نے کیا خوب لکھا ہے کہ’’حق یہ ہے کہ بڑا ادب صدیاں گزر جانے پر بھی زندہ،پائندہ اورحقائق نما رہتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر رخسانہ صبا اپنے مضمون ’’ عہدجدید میں تہذیبی تنقید کا منظر نامہ ‘‘میں ایک جگہ لکھتی ہیں کہ’’ تہذیبی وثقافتی اقدار ہی تخلیق کار کے وجدان اورتخیل کاسرچشمہ ہوتی ہیں اورتہذیب ،تخلیقی سرگرمیوں سے نمو پاتی ہے۔اس طرح ادب اورتہذیب ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔
تخلیقی عمل کے لیے چوں کہ تنقیدی شعور بنیادی اہمیت رکھتا ہے ، اس لیے تہذیب ، تخلیق اورتنقید کی تثلیت ہی معاشرے میں زندگی، عصر اور سماج کی آگاہی ، مستقبل بینی کے شعور،جمالیاتی احساس، جذباتی توازن اورثقافتی ورثے کی نسل در نسل منتقلی کا وسیلہ بنتی ہے گویا تخلیق کار اورناقد دونوں کا سروکارتہذیب سے ہے‘‘۔
ڈ اکٹر امجد طفیل ’’فتح محمد ملک: نظریاتی استقامت کی مثال‘‘ میں کچھ یوں رقم طراز ہیں کہ’’ ایک ایسے عہد میں جب مادی مفاد کے حصول میں بظاہر خود کو دانشور کہلائے جانے والے انداز تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد پینترے بدلتے دکھائی دیتے ہیں;فتح محمد ملک اپنے تنقیدی اور فکری موقف کے ساتھ اردو تنقید میں پاکستانیت کا مقدمہ لڑتے دکھائی دیتے ہیں‘‘۔
’’ انتظار حسین کی کہانیوں میں خطوط غالب کی بازگشت‘‘ نامی مضمون میں ڈاکٹر فرید حسینی کے اس جملے نے حیران کیا۔
’’ راقم کے خیال میں مرزا کے خطوط افسانچے کہے جانے کے لائق ہیں جن میں وقت کے آشوب کو افسانوی پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ ہنری فیلڈنگ نے جو ناول کی تعریف کی تھی کہ یہ Comic Epic in Porseہے،تو یہ قول خطوظ غالب پر صادق آتا ہے۔
راقم السطورکو اس مجلے میں ایک خاص بات نظرآئی ہے جو عمومی طور پر ادبی رسائل میں نہیں دکھائی دیتی ہے ۔ ذکیہ مراد صاحبہ نے’’قائد اعظم لائبریری میں موصول ہونے والی نئی کتب ‘‘ کے عنوان سے جو تحریر قارئین کی نذر کی ہے۔ وہ بے حد خاص ہے کہ اس میں قائد اعظم لائبریری میں آنے والی نئے کتب کا تذکرہ کیا ہے جو کہ غالباََ اپنی جگہ ایک منفرد سلسلہ ہے کہ اس مجلے کے قارئین کو نئی کتب کی آمد کا جہاں علم ہوگا وہیں تحقیق کرنے والوں کے علم میں یہ بات آسکے گی کہ کس خاص موضوع پر کون سی کتاب اس وقت کتب خانے میں موجود ہے۔
اس طرح کا سلسلہ دیگر رسائل میں بھی اگر شروع کیا جائے تو ایسے قارئین جو کتب نہیں خرید سکتے ہیں وہ کسی بھی کتب خانے میں نئی کتب کی آمد پر مطالعہ کرنے کے لیے جا سکتے ہیں یوں کتب بینی کو فروغ بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے ادب اطفال رسائل بھی اگربچوں کے لیے شائع ہونے والی کتب کی کتب خانوں پر آمد کے حوالے سے اطلاع شائع کریں تو کئی بچے اُن کتابوں سے مستفید ہو سکتے ہیں خاص کر وہ نونہال جو کتب خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں وہ کتب خانے جا کر پڑھ سکتے ہیں۔
بہرحال، ذکیہ مراد صاحبہ انفرادیت کے حامل اس سلسلے کوپیش کررہی ہیں جس پر یقینی طور پر قابل تعریف ہیں ۔اس مجلے میں شامل دیگر تحریروں کی جہاں تک بات ہے اس میں ڈاکٹر تبسم کاشمیری بطور علامت شناس( محمد ذیشان وکیل)، شرح خالق باری( حصہ دوم)،دیوان غالب اورغالب پرستی( اختر سعید)،سرسید احمد خان اورہندی اُردو کامسئلہ( صفدر امام قادری)،مجید امجد اورسرمایہ دارانہ نظام ( ڈاکٹر شاہد اشرف)،رشید حسن خاں کی دو ہندی کتابیں( ابراہیم افسر)، قاضی سرفراز حسین فاروقی( ڈاکٹر علی محمد خان)،خطوط مشاہیر بنام کرنل عبدالرشید( مرتبہ :ڈاکٹر تحسین فراقی)،نظامی گنجوی کا شہکار ’’ خسرووشریں‘‘ اور’’ لیلیٰ ومجنوں‘‘( سعید ی سیرجانی ،مترجم :ڈاکٹر انجم حمید)، ارض ویراں( ٹی ایس ایلیٹ، مترجم :سیدسراج الدین)،انسانی ماحول(چارلز گائی ایٹن:مترجم:طیبہ تحسین)، ادارہ فروغ قومی زبان کی چند علمی و تحقیقی مطبوعات( ڈاکٹررفاقت علی شاہد)، اردو کلاسیکی ادب کی اشاعت کا تازہ سلسلہ( ڈاکٹررفاقت علی شاہد) شامل ہیں جو بہت کارآمد ہیں کہ ان پر خوب تحقیق کی گئی ہیں۔
اس شمارے میں ادب اطفال کے حوالے سے تحقیقی کام نہیں دکھائی دیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں ادب اطفال کے حوالے سے بھی تحقیقی و علمی سطح پر ہونے والے مواد کو مجلے کا حصہ بنایا جائے یا بطورخاص کوئی خاص نمبر اس حوالے سے مرتب کیا جا سکے تاکہ پاکستان میں ادب اطفال کے فروغ کی کوششوں کو مزید توانائی مل سکے۔