الیکڑانک میڈیا کا مینار انجم عثمانی-
شمیم عثمانی
یہ بات شائد 1990ء یا 91 کی ہے۔ہم ریڈیو میں نئے نئے وارد ہوئے تھے۔ ہوا یہ کہ علی گڑھ سے تعلیم نامکمل چھوڑ کر روزگار کی تلاش میں دہلی کا رخ کیا اور کچھ دنوں تک اپنے بہنوئی خالد مکرم صاحب کے ساتھ یونانی دواؤں کا کام کیا جو کہ اس وقت بیسویں صدی والوں کی دوائیاں پوری دہلی میں سپلائی کیا کرتے تھے۔ اسی دوران ایک دن ڈاک کے ذریعے ایک سرکاری خط موصول ہوا۔ دیکھ کر کچھ گھبرائے بھی اور تجسس بھی ہوا۔ خیر لفافہ چاک کیا تو ریڈیو سے بلاوا تھا اردو سروس کے مشہور پروگرام ’’ نئی نسل- نئی روشنی‘‘ کے لیے ایک کوئز پروگرام میں شرکت کرنی تھی۔ وہ کوئز ہمارے علمی جد امجد سرسید احمد خاں کے حوالے سے تھا۔ بہرحال پروگرام میں شرکت کی 75 روپے یا غالبا 50 روپے کا ایک چیک ملا، انتہائی خوشی ہوئی۔ ہماری پرفارمینس کچھ اچھی لگی، تو ہمیں دوبارہ جنوری کے مہینے میں ایک پروگرام اور مل گیا، وہ تھا NCC کیمپ کے حوالے سے جو ہر سال یومِ جمہوریہ کے موقع پر دہلی کے گریسن گراؤنڈ میں لگتا ہے۔ یہ دونوں پروگرام ہمیں جناب ثروت عثمانی کے ذریعہ ملے، کیونکہ اس وقت وہی’’ نئی نسل- نئی روشنی‘‘ پروگرام انچارج ہوا کرتے تھے۔ خیر اس طرح ریڈیو آنا جانا رہا۔ اس زمانے میں اردو سروس مشاہیر کی آ ماجگاہ تھی۔ محمد علی موج رامپوری، محمود ہاشمی، مجیب صدیقی، معین اعجاز، سراج احمد، پریم وہرہ، پی کے کھیر، سرفراز صاحب،نیر صدرالدین صاحبہ، ثریا ہاشمی اور مسعود ہاشمی وغیرہ ۔ زبیر رضوی صاحب ان دنوں ڈئریکٹر آ ف اسپورٹس ہوا کرتے تھے۔ ان لوگوں نے اسکرپٹ لکھنے سے لے کر مائک پر پیش کرنے کے تمام رموز سے واقف کرایا۔ اردو سروس کے اناء نسرز میں اوم شرما، اقبال وارثی، شمیم قریشی، اے جبار، ایس ایم شفیق ، عذرا قریشی، مریم کاظمی، طاہرہ نیازی، انوار انجم اور ایس ایم ذکی وغیرہ تھے۔بہرحال اکثر لنچ کے وقت دور درشن سے ایک صاحب بہت تیزی کے ساتھ چلتے ہوئے موج صاحب کے پاس آیا کرتے تھے اور تھوڑی دیر بیٹھ کر چلے جاتے۔ ان دنوں محمود ہاشمی صاحب اسسٹینٹ اسٹیشن ڈائریکٹر ہوا کرتے تھے اور کبھی بھی اپنے کمرے میں نہیں بیٹھتے تھے۔ اردو سروس کے کمرے ہی میں تشریف فرما ہوتے تھے۔ خوب مذاق ہوتا تھا۔ ہمیں بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملتا۔ ہم آنے والے شخص سے بالکل ناواقف تھے۔ ان دنو ں ہم اکثر ظہر کی نماز پارلیمنٹ کی مسجد میں پڑھا کرتے تھے اور ہمارے عزیز جو پارلیمنٹ ہی میں ملازم تھے انس عثمانی وہ بھی اور انجم صاحب بھی بہت پابندی کے ساتھ نماز با جماعت کے قائل تھے۔ ایک دن فرصت کے لمحات تھے، اسی دن میرا انجم عثمانی سے پہلا تعارف ہوا۔ انکا پہلا ردعمل یہی تھا تم تو اردو سروس میں ہونا۔ میں نے کہا نہیں سر میں کیزوول ہوں۔ بولے کوئی بات نہیں، کوئی پریشانی ہوتو بتاؤ۔ تب تک دیوبند کا کوئی حوالہ ہمارے درمیان نہیں تھا۔ پھر ایک دن موج صاحب اور محمود ہاشمی صاحب نے میرا تعارف کرایا۔ دیوبند کے حوالے سے تب وہ بڑے خلوص سے ملے۔ ان دنوں تفریح کے لئے صرف ریڈیو اور ٹیلی ویژن ہی ہوا کرتے تھے۔ انجم عثمانی صاحب بزم کے پروڈیوسر تھے۔ ہمارے ایک سینئر دوست کمال پرویز صاحب اور ان کے ساتھ محترمہ سارہ صا حبہ وہ دونوں اینکر ہوا کرتے تھے۔ ان کے پروگرام کی ریگارڈنگ جمعے کے روز بعد نمازِ جمعہ ہوا کرتی تھی۔ ایک مرتبہ ہم دیوبند سے انکے لئے یعنی انجم عثمانی صاحب کے لئے ایک خط لے کر آئے ۔ ان کے کمرے کا نمبر 512 تھا۔ جب ہم کمرے میں پہنچے تو وہاں کمال پرویز صاحب سارہ صاحبہ اور کئی لوگ بیٹھے تھے جو مجھے جانتے تھے لیکن انجم صاحب نے نا آشنا لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا۔ بھئی میں آپ کو پہچانا نہیں۔ ہمارے تو جسم میں آگ لگ گئی۔ غصہ کے مارے چہرہ سرخ، ہم نے بھی غصے میں کہا کہ میں اپنے آپ کو پہچنوانے نہیں آیا، آپ کا یہ خط تھا یہ دینے کے لئے آیا تھا۔ اس واقعے کے بعد نہ پھر کبھی وہ بھولے اور نہ ہمیں یاد دلانے کی ضرورت پڑی۔ دوردرشن میں بھی ہماری انٹری اسی طرح ہوئی اردو ادب پر ایک کوئز پروگرام تھا۔ کمال پرویز صاحب اینکر تھے ہم نے سفارش لگوائی اور اس میں میری ایک دوست ندھی کو بھی شامل ہونے کی اجازت مل گئی۔ اس وقت ہم جوان بھی تھے اور شاید خوبصورت بھی (یہ وہم بھی ہوسکتا ہے) بہر حال ہم نے عثمانی صاحب سے کہا ہم بھی پروگرام پیش کرنا چاہتے ہیں۔ بولے کچھ تیاری کرکے آ جانا، جمعہ کے روز ہم نے خوب رٹّے لگائے لیکن جب کیمرے کے سامنے گئے تو سب بھول گئے کیونکہ ایک تو کیمرے کی چکا چوند، دوسرے انجم عثمانی صاحب کی دہاڑ، غصے والی آوازیں جو کچھ یاد کیا سب ٹائیں ٹائیں فش ، فیل ہوگئے۔ پتہ چلا کہ بولتے وقت ہونٹوں سے پٹ کی آواز آتی ہے، جو مائک پکٹر لیتا ہے۔ اس مسئلے کا حل بھی مل گیا ہونٹوں پر ویسلین لگا کر بولے تو پھر آواز آنی بند ہوگئی۔ شروع شروع میں وائس اوور کا کام ملا۔ وہ بھی کبھی کبھی، ریڈیو میں ہماری پکڑ مضبوط ہوتی گئی۔ پھر ایک دن انجم صاحب نے کہا کہ تمھیں ایک پروگرام دے رہا ہوں یہ پہلا بھی ہو سکتا ہے اور آخری بھی مرضی تمہاری ہے۔ خیر صاحب بہت محنت کی ہر لفظ کی ادائیگی پر توجہ دی اور دعا درود کے بعد چڑھ گئے تختۂ دار پر۔ نہ جانے کیوں اس دن انجم صاحب غصہ نہیں ہوئے اور ہمارا پروگرام کئی کٹس کے بعد اوکے ہوگیا۔ ہمیں دور درشن پر پروگرام کا پہلا چیک غالبا تین سو روپے کا ملا۔ ایسا لگا مانو دنیا فتح کرلی۔ پھر دھیرے دھیرے انجم عثمانی صاحب نے تربیت کرنی شروع کی۔ کیسے کیمرہ فیس کیا جاتا ہے، کیسے الفاظ سے کھیلا جاتا ہے۔ کس طرح شخصیات کا تعارف کرایا جاتا ہے۔ پروگرام پیش کرنے اور خبر پڑھنے میں کیا فرق ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔جس طرح اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسانوں کا جوڑا بنا کر بھیجا اسی طرح دوردرشن میں بھی ایک مرد اینکر اور ایک خاتون اینکر ہوا کرتے تھے۔ کافی وقت تک میرے ساتھ بھی ایک خاتون اینکر کو لگایا گیا۔ اب دونوں پروگرام پیش کرتے کبھی میں وائس اوور کرتا، تو کبھی وہ اسی طرح کبھی میں اینکرنگ کرتا تو کبھی وہ، انجم عثمانی صاحب ان محترمہ کو میری دُم یا پَخ کہا کرتے تھے (ان محترمہ کا نام اس لئے نہیں لکھا کہ وہ اب پردے میں ہیں اور شاید انکے شوہر کو یہ بات ناگوار گزرے)
انجم عثمانی صاحب کی تربیت کی بدولت ہی ہم اسکرین فیس کرسکے۔ پھر ETV میں چلے گئے وہاں سے واپس آ کر پھر ریڈیو میں کام کرنے لگے۔ دوردرشن میں پروگرام کرنے لگے۔ پھر دوردرشن پر خبروں کے چینل سے وابسطہ ہوگئے۔ ایک بات جو انجم عثمانی صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ جب تک میں ہوں یہ دور درشن کا پروگرام بزم چل رہا ہے جس دن میں جاؤں گا تم دیکھ لینا یہ پروگرام بھی ختم ہوجائیگا۔ ہم اس بات کو یونہی ہوا میں اڑا دیتے تھے لیکن ان کی یہ بات حقیقت ثابت ہوئی۔ ان کے جانے کے بعد کچھ دنوں تک یہ پروگرام ان کے معاون سنجے سکسینہ جی نے چلایا لیکن بالآخر اردو والوں کی بے حسی اور لاپرواہی کے سبب دور درشن کا یہ مقبول پروگرام بزم بھی ماضی کا حصہ بن گیا۔انجم عثمانی صاحب کی ذات کے حوالے سے یہ لکھنا بھی ضروری ہے کہ وہ باضابطہ مولوی تھے یعنی فاضلِ دارالعلوم دیوبند انہوں نے مدرسے کی دنیا سے نکل کر کس قدر محنت ومشقت کے بعد الیکڑونک میڈیا میں اپنا نام کمایا۔ یہ ان لوگوں کے لئے سبق ہے جو کہتے ہیں مدارس ہمارے بچوں کو بیکار کررہے ہیں۔ انجم صاحب افسانہ نگار بھی تھے اور ان کے افسانوں کا پس منظر عام طورپر قصباتی زندگی ہوتا تھا۔ ان کے افسانے پڑھنے کے لئے ضروری ہے کہ قاری ہندوستان کی قصباتی زندگی سے واقف ہو۔ تہذیب کی شکست وریخت، اقدار کی پامالی اور انسانی رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ یہ سب موضوعات ان کے افسانوں کو معتبر بناتے ہیں۔ ٹیلی ویژن نشریات سے متعلق ان کی کتاب اردو میں پہلی کتاب ہے جسے کئی یونیورسٹیز کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ کورونا کے اس دور نے جہاں ہم سے علم وادب کے بڑے بڑے تاجدار ہم سے چھین لئے ہیں۔ وہیں ہر وقت اپنے کام میں مصروف رہنے والے ایک عام سا آدمی نظر آنے والے انجم عثمانی کو بھی ہم سے جدا کردیا ۔ بہرحال انجم عثمانی صاحب آ ج ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن یقیناً ان کی یادیں-ان کی باتیں، ان کی تخلیقات، ان کو تادیر ہمارے ذہنوں میں زندہ رکھیں گی۔
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں ۔۔۔۔